ہجرے عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 22

مانو کہاں ہو أٶ دیکھو میں تمھارے لیٸے دودھ لاٸی ہوں۔۔۔
عُروشہا ہاتھ میں دودھ کا پیالا لیٸے کمرے میں داخل ہوٸی تھی اور اپنی بلی کو پکار رہی تھی جس کا نام اس نے بہت پیار سے مانو رکھا تھا
مانو کہاں ہو ورنہ میں چلی جاٶں گٸی
وہ پورے کمرے کا جاٸزہ لینے لگٸی بیڈ کے نیچھے دیکھا وہ وہاں بھی اس سے نظر نہیں أٸی اب بالکونی میں جانے کا اراد کرتے اس طرف جا رہی تھی کہ اچانک وہ سفید رنگ کی بلی اس کے پیروں میں بھاگتی أٸی
شاید عُروشہا کو بھی اس سے بہت زیادہ لگاٶں ہو گیا تھا وہ اس سے اکثر باتیں کرتی تھی اور وہ اس کی باتیں اس طرح دھیان سے سُنتی کہ جیسے وہ اس کی باتیں سمجھ رہی ہے
کہاں گٸی تھی مانو دیکھو میں تمھارے لیٸے دودھ لاٸی ہوں جلدی سے پیوں اب
بلی کو دونوں ہاتھوں سے پیار سے اٹھایا وہ بلی بھی کھلکھلا رہی تھیں
عُروشہا نے زمین پہ اس کے اگے دودھ کا پیالا رکھا تو وہ فوراً اس پہ ٹوٹ پڑی تھی
الماڑی کی جانب بڑھی ہیگرل کو یہاں وہاں کرتے کوٸی اچھی سی اپنی ڈریس ڈھونڈہ رہی تھیں
یہ کیا ہیں ۔۔۔۔اس کی نظر اس لاک کھانے پر گٸی اس کو کھولنے کی کوشش کی مگر اس کی یہ کوشش بیکار رہی
یہ شاید پاسورڈ سے کلتا ہے ۔۔لیکن اس میں پاسورڈ کیوں رکھا ہے ارحام نے ایسا کیا ہیں ۔۔اس میں جو وہ سب سے چھپا کے رکھتا ہے
وہ اس لاک کھانے نماں تہجاری کو دیکھتی کشمکش میں سوچنے لگٸی
اس کو بعد میں اکر دیکھتی ہوں ابھی دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔
یہ سوچتی وہ بلو کلر کا فراک چوہڑیدار پجامہ ہم رنگ ڈوپٹہ لیتی واشروم میں گٸی پندرہ منٹ بعد وہ فریش ہوکر باہر أٸی
ٹوٸلیہ سے بال رگڑ کے سکانے گٸی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی تیار ہونے لگٸی
جب اچانک باہر سے أتی أواز اس کے کان کی پسٹ سے ٹکراٸی وہ تیاری اپنی چھوڑ کے سیڑھیوں سے نیچھے دیکھنے لگٸی کہ کیا ہو رہا ہے
ارحام سردار یہ کچھ زمینوں کے کاغذات ہے ۔۔اور جو میں نے أپ کو ایک مزدور کا بتایا تھا اس کے معملے کا کیا ہوا وہ أج أپ سے ملنا چاہتا تھا مگر میں نے انہیں کہا کہ میں أپ سے ان کے بارے میں بات کروں گا
ارحام ضاور دونوں جیسے مینشن میں پہنچھے حال میں صوفوں پہ حیدر قربان بیٹھے بات کر رہے تھے جب ارحام اور ضاور ان کے پاس بیٹھ گٸے
اچانک ایک گاٶں کا أدمی جس کے ہاتھ میں کچھ کھاکی فاٸلز تھیں جو ارحام کی جانب بڑھاٸی تھیں
کاکا أپ یہ فاٸل اور جو بھی گاٶں کے مساٸل ہیں ۔۔۔وہ أپ دادا جی کو بتاٸیں اب سے یہ سب وہ دیکھے گٸے
ارحام نے اس أدمی کو دیکھ کر حیدر سلطان کو أخر میں دیکھا
لیکن سردار تو أپ ہیں ہم أپ سے ہی درخواس کریں گٸے
اس أدمی کو کچھ سمجھ نہیں أ رہا تھا کہ سردار تو ارحام ہے پھر وہ یہ سب کیوں کہہ رہا تھا گاٶں والوں کو ابھی تک یہ پتا نہیں دیا گیا تھا کہ ارحام سردار کے اُحدے پر نہیں ہے
مبشر تم أج سے بلکہ ابھی سے جو بھی گاٶں کے کام ہے وہ تم مجھے بتاٶں گٸے ارحام کو نہیں
حیدر نے ارحام کو سخت نظروں سے گھورتے سامنے کھڑے أدمی کو کہا تھا اور حیدر ان کے روبرو کھڑا ہوا
لیکن کیوں ۔۔۔ وہ أدمی حیدر کا وفادار تھا گاٶں کے معملات حیدر اس کو سونپتے تھے اسلیٸے وہ سوال پر سوال کرنے کا درجہ بھی رکھتا تھا اور اس سے سہی سے جواب بھی سب دیتے تھے وہ چونکا تھا
کیونکہ ارحام سلطان سے سرداری کا احدہ میں نے لے لیا ہے
حیدر نے سنجیدہ سے کہا تھا عُروشہا کو سہی سے سمجھ نہیں أ رہا تھا کہ نیچھے کیا باتیں ہو رہی ہے ۔۔۔ان کی أواز دھیمی تھیں جس وجہ سے اس تک أواز نہیں جا رہی تھی وہ تو بس سب کے ری ایکشن دیکھ رہی تھیں
مگر ارحام سلطان نے اپنی زمیداری تو بہت اچھے سے نھباں رہے تھے اور گاٶں کے کہیں لوگوں کو ان سے بہت ساری امیدیں تھی بلکہ چوہدری کے گاٶں والوں نے تو خاص طور پر درخواس بھیجی ہیں کہ وہ ہمھارے گاٶں میں أنا چاہتے ہیں
لیکن وہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ۔۔حیدر کو تعجب ہوا تھا
حیدر سردار أپ ایک اچھے سردار تھے لیکن أپ بُرا نا مانیٸے گا أپ نرم مزاج کے انسان ہیں ۔۔اور ولید بخش چوہدری کو أپ اچھے سے جانتے ہیں کبھی أپ نے ان کے خلاف کوٸی سخت قدم نہیں اٹھایا أپ نے انہیں ہر بار معاف کیا ہے جب کہ ارحام سردار اپ سے مختلف ہیں۔۔وہ ولید بخش چوہدری کو پوری پنجاٸیت میں عیٹ کا جواب پتھر سے دیا اور یہی بات ان کے گاٶں اور ہمھارے گاٶں والوں کے دل میں ان کا مقام اور اونچھا بنا دیا ہے
چوہدری کے گاٶں والوں کا ماننا ہے کہ ان کو اس نا انصافی اور چوہدری کے ظلموں سے ارحام سردار بچاٸیں گٸے اسلیٸے ان کے گاٶں والوں نے بہت امید سے ایسا کہا ہے اب أپ ہی بتاٸیں میں انہیں جاکر یہ بتاٶں گا کہ ارحام سردار اب احدے پہ نہیں ہے تو سوچے کتنے لوگوں کی امیدیں ٹوٹے گٸی جو کہ سب کی ارحام سردار سے ہیں
اس أدمی کی بات ارحام بھی سنجیدگی سے سن رہا تھا بلکہ قربان ضاور کا بھی در عمل یہی تھا حیدر سلطان کو پریشان ہوۓ
ارحام اپنی جگہ سے اٹھ کر اس أدمی کے سامنے کھڑا ہوا
کاکا دیکھیں ان کے گاٶں والوں کو أپ جاکر یہ کہے کہ کون کس کے لیٸے أخر کتنا لڑیں گا اگر وہ اس نا انصافی اور ظلموں سے تنگ أگٸے ہیں تو ۔۔۔خود اپنے لیٸے أواز اٹھاۓ میں ہمیشہ ان کے ساتھ نہیں رہوں گا کہ جب بھی ان کو میری ضرورت پڑے گٸی ان کے أگٸے کھڑا ہوجاٶں گا
ارحام نے سنجیدگی سے اسے سمجھایا اس کی بات حیدر اور قربان کو بھی سہی لگٸی تھی اسلٸے وہ خاموش تھے
لیکن ارحام سردار أپ سمجھنے کی کوشش کریں
وہ ارحام کے أگٸے ہاتھ چھوڑنے لگا یہ سب اوپر کھڑی عُروشہا نیچھے کا سب منظر دیکھ رہی
کتنا بے رحم انسان ہے کسی کے پرواھ نہیں ہیں اسے
عُروشہا نے ارحام کو دیکھ کر نفرت سے کہا تھا
کاکا ہاتھ نہیں چھوڑیں أپ بڑے ہیں لیکن پلیززز ان کو جاکر وہ پیغام دیں جو میں نے أپ کو دیا ہے
ارحام أدمی کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیٸے بہت نرمی سے کہا اور ان کا ہاتھ نیچھے کرتا وہ سیڑھیاں عبور کرنے لگا تھا
سیڑھیوں کو عبور کر چکا تھا اس کا سر نیچھے تھا جب سر اٹھایا تو عُروشہا کو نیچھے جھاکتے دیکھا
مطلب ہمھاری سب باتیں چھپ کر سُنی جا رہی ہے
ارحام نے عروشہا کو دیکھ کر من میں بڑبڑایا وہ ابھی نیچھے اس أدمی کو دیکھ رہی تھیں
اس کا دھیان ابھی نیچھے تھا جہاں حیدر اس أدمی کے کندھے تھپتھپا رہا تھا جیسے انہیں تسلی دے رہا ہو
ارحام نے بنا شور کیٸے دھیرے سے جاکر اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا
وہ ادمی اب جا چکا تھا ضاور بھی اپنے کمرے میں چلا گیا عُروشہا جیسے پیچھے ہوٸی اس سے پہلے کہ اس کے منہ سے باسخت چیخ نکلتی ارحام نے اس کے گلابی ہونٹوں پر اپنا مظبوت ہاتھ رکھ کے اس کی چیخ کا گلا گھونٹ دیا
پھٹی أنکھوں سے وہ ارحام کو دیکھنے لگی چند منٹ ارحام اس کی جھیل سی أنکھوں میں کھو ساگیا عُروشہا کو سانس لینے میں اکسیجن کی کمی ہو رہی تھی ارحام نے محسوس کیا کہ اس سے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی ہے تو یکدم اپنا ہاتھ اس کے لبوں سے ہٹایا
وہ گہری گہری سانسیں لینے لگٸی ارحام محفوظ سا اس سے سانس لیتا دیکھ رہا تھا
أپ کو ہمھیں مارنے کا کوٸی اور طریقا نہیں ملا تھا کیا جو اس طرح میری سانس روک کر اور پیچھے سے ڈرا کر لینا چاہتے تھے
عُروشہا اپنی بے حال سانسوں پہ قابو پاتے ہی ارحام کو گھورتے دھاڑی
یہ تو چھوٹے طریقے بتاٸیں ہے تم نے ۔۔۔میں اس سے بھی کہیں زیادہ بھیانک موت دیتا ہوں
لفظوں پر زور دیتے کہا تھا اور اس سے گھورا تو عُروشہا اس کی باتوں سے گھبرا کر نظریں چراتی سیدھا کمرے میں چلی گٸی
اس کا رنگ یکدم پیلا پڑتا دیکھ کر ارحام کے لبوں پہ مسکراہٹ أ گٸی
تم کہیں جا رہی ہو
ارحام نے اس سے جوتی پہنتے دیکھا عُروشہا نے ریشمی بالوں کو پونی میں قید کیا
حویلی۔۔
اب وہ جوتی پہن گٸی تھیں أٸینے میں کھڑی ڈوپٹے کو سہی سے سر پر اوڑھنے لگی
کیوں ۔۔۔ بیڈ پر بیٹھتے اس سے تیار ہوتا دیکھ رہا تھا
امی سے ملنے ۔
۔ ڈوپٹہ اوڑھتے اب وہ اس کے سامنے کھڑی ہوگٸی تھی پہلے سے اب وہ اس سے تھوڑا کم ڈرتی تھی لیکن یہ سب ارحام کو دیکھاتی تھی کہ میں اس سے نہیں ڈرتی مگر وہ واقعی میں اس سے ابھی ڈرتی تھی اور یہ بات وہ خود بھی قبول کرتی تھی
وجہ ___ اس بار ارحام اس کے روبرو کھڑا ہوتے سخت لہجہ میں کہا تھا
لڑکی شادی کے بعد ۔ماں سے ملنے کیوں جاتی ہے
۔۔۔ڈرے ڈرے لہجے میں کہا تھا مگر اس کی نظریں نیچھے تھیں وہ اس کی سرد أنکھوں میں دیر تک نہیں دیکھ پاتی تھی اور ڈر جاتی تھی وہ شخص أنکھوں سے ہی اس کی جان لے لیتا تھا
اسلیٸے کہ وہ لڑکی اپنی ماں سے الٹی پٹیاں پڑھنے جاتی ہے کہ کیسے اپنے شوہر کو اپنے پلو سے باندھ کے رکھ سکتی ہیں
ارحام اس سے گھورنے لگا عُروشہا اس کی بات سُن کر فوراً سر اوپر کرتی اس کی سرد أنکھوں میں دیکھنے لگی
اس سے ارحام سے ایسے لفظوں کی امید نہیں تھی
میری امی ایسی نہیں ہے کہ مجھے الٹی پٹیاں پڑھاۓ۔۔۔ اس نے اہستگی سے کہا
او اچھا واقعی بُٹ تمھیں میں پہلے ہی بتادو کہ ارحام سلطان مس عُروشہا تمھارے پلو سے کبھی نہیں باندھ سکتا وہ کوٸی اور مرد ہوتے ہو گٸے جو بیوی کے پلو سے بندھ جاتے ہیں
۔۔۔ ارحام یہ کہتا اس کی کمر میں ہاتھ ڈال گیا ہاتھوں سے وہ اس سے پیچھے دھکیل رہی تھی وہ اس سے اور اپنے قریب کرنے لگا کہ ارحام کی دل کی دھڑکنوں کی أواز اسے اپنے کان میں سُناٸی دے رہی تھیں
عروشہا رونے والی ہوگٸی تھی ارحام کا لمس اپنی کمر میں محسوس کرتے اوپر سے وہ اس سے اپنے سینے کے قریب کیے ہوا تھا
اچھا اب تم بچوں کی طرح رونے مت لگ جانا چلو تمھیں میں چھوڑ أتا ہوں
گردن کو اوپر کرتے اس کی أنکھوں میں جھاک کر کہا تھا تو وہ حیران ہوٸی کہ وہ اس سے خود حویلی چھوڑ أۓ گا۔۔۔ کبھی کہتا ہے تمھارے پلو سے نہیں بندھوں گا اور کبھی لگتا ہے کہ میری ہر بات بنا کہے سمجھ جاتا ہے اخر کیا ہے یہ انسان۔۔۔
وہ بس اسے دیکھ کر دل۔میں سوچنے لگٸی
أپ مجھے خود حویلی چھوڑ أٸے گٸے
عروشہا کو اپنے کانوں پر یقین نہیں ہوا تھا اسلٸے دوبارہ پوچھا
ہاں بیوی کو اس کے گھر شوہر ہی چھوڑ أتا ہے ویسے تم جا کس کے ساتھ رہی تھی اور کس کی اجازت سے جا رہی تھی
اس سے یاد أیا کہ وہ کس کے ساتھ جانے کا ارادہ کر رہی تھی انکھیں سکوڑ کر پوچھا
دادا جی کو کہاں تھا کہ مجھے بابا امی کی بہت یاد أ رہی ہیں ۔۔تو انہوں نے مجھے اجازت دیں حویلی جانے کی ضاور بھاٸی کو کہاں تھا کہ وہ مجھے چھوڑ أۓ
عُروشہا نے ساری تحمل سے تفصیل بتاٸی تھی ارحام نے کچھ نہیں کہا بس سر ہاں میں ہلایا
ہممممم چلیں
وہ خاموش کھڑا ناجانے کیا سوچ رہا تھا جب عُروشہا نے پھر سے استفسار کیا تھا ارحام کی پکڑ اس کی کمر پہ ڈھیلی تھی اسلٸے وہ خود کو دھیرے سے اس کے سینے سے دور کر گٸی
عُروشہا ایک بات پوچھوں
وہ کچھ سوچ اندازہ میں اسے دیکھ کر کہا تھا وہ جو دروازے پہ قدم رکھ رہی تھی یکدم اس کے پیچھے سے سوال کرنے پر مڑکر اس سے سوالیہ نظروں سے دیکھا سر ہاں میں ہلایا
وہ اب اس کے پاس کھڑا تھا
کیا تم ابھی شایان سے محبت کرتی ہو
ارحام کے سوال پر وہ چونکی اور حیرانی اس کی انکھوں میں جلکی کہ وہ ایسا سوال کیوں کر رہا تھا عُروشہا کو کھو نے کا ڈر دن بہ دن ارحام کے روم روم میں بڑتا جا رہا تھا ۔۔۔عُروشہا کشمکش کا شکار ہوٸی کہ اخر کیا جواب دے
بولو کیا ابھی تم اس کو چاہتی ہو
اسے بلکل بُت بنا کھڑا دیکھتے پھر سے اپنا کیا سوال دہرایا
سچ بتاٶں یا پھر جھوٹ
وہ اس کی سرد أنکھوں میں دیکھ کر بولی
مجھے جھوٹ سُنا پسند نہیں اور نا ہی جھوٹ بولنے والے لوگ ۔۔اگر تم چاہتی ہو کہ تمھیں میں نا پسند کروں تو پھر تم شوق سے جھوٹ بول سکتی ہو
اس کی بات کا سیدھا جواب نہ دے کر عُروشہا بغور سامنے کھڑۓ اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھیں جو اس کی سوچ اور سمجھ سے پرے تھا
نہیں کرتی ہاں کوٸی وقت تھا جب میں شایان سے محبت کرتی تھی ۔۔لیکن أپ سے شادی کے بعد میں اس سے محبت کرکے اپنے رب کی نظر میں نہیں گرنا چاہتی میں وہ میرا نا محرم ہیں ۔۔۔جب کہ شوہر ہونے کے بعد بھی میں اس سے محبت کروں تو میں گہناھ گار ہوٸی أپ کی بھی اور رب کی بھی
وہ اسے دیکھ کر سنجیدگی سے کہنے لگٸی
ہممم تو کیا مجھ سے محبت کرتی ہو
أج ارحام کا ایک نیا روپ عُروشہا دیکھ رہی تھیں جو کہ اس سے پیار سے سوال کر رہا تھا اور وہ اس کے سوالوں کا جواب دے رہی تھی
اگر کہوں کہ نہیں کرتی أپ سے محبت تو
وہ بھی دوبدو سوال جواب کر رہی تھی اس سے
تو تمھیں خود سے عشق کرنے پر میں مجبور کر دو گا
اس کی طرف قدم دھیرے سے بڑھاۓ وہ اس کی أنکھوں میں دیکھ کر بول رہا تھا ۔۔۔۔وہ پیچھے ہوتی جاکے دروازے سے لگ کھڑی ہوٸی تھی اس کی أنکھوں میں خمار اپنے لیٸے جنون دیکھ عُروشہا شاکت ہو گٸی
بھابھی کیا أپ تیار ہیں چلیں
وہ دونوں کھڑے ایک دوسرے کی أنکھوں میں دیکھ رہے تھے جب اچانک ضاور کی أواز پر ارحام جھٹکے سے اس سے دور ہوا تھا اور عُروشہا اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرنے لگٸی
کیا ہوا ۔۔۔ضاور ان دونوں کو یہاں وہاں نظریں پھیرتے دیکھ کر دونوں کو اپنی طرف متوجہ کیا
کچھ نہیں ضاور عُروشہا کو میں خود حویلی چھوڑ أٶ گا بلکہ ایسا کرو تم بھی ساتھ چلو مجھے تم سے بھی کام ہے
اس کی بات سے ضاور نےاثبات میں سر ہلایا اور وہ تینوں سیڑھیوں کو عبور کر رہے تھے عُروشہا پیچھے چل رہی تھی جبکہ ارحام ضاور کے ساتھ نیچھے سیڑھیاں اتر رہا تھا
تیکھی نظروں سے گردن پیچھے موڑ کر عُروشہا کو دیکھا جو بلکل ایک پری لگ رہی تھی پنک کلر کے سادھ سوٹ میں بھی وہ اس کے سر سے لیکر پاٶں تک جاٸزہ لینے لگا تھا أج اس کے دل میں سکون دوڑا تھا عُروشہا کے منہ سے اطراف سُن کے کہ وہ اب شایان سے محبت نہیں کرتی۔۔ہاں وہ اس سے بھی محبت نہیں کرتی تھی لیکن وہ اب چاہتا تھا کہ عُروشہا اس سے دیوانوں کی طرح عشق کرے جیسے وہ اس سے کرنے لگا تھا
کسی کی نظروں کی تپش خود پر محسوس کرتی اس نے اچانک سر اٹھا کر دیکھا جہاں ارحام کی نظر اسے ملی تھیں اس کی أنکھوں میں اپنے لیٸے أنکھوں میں کہیں جزبات دیکھ کر وہ دھنک رھ گٸی اس کی أنکھوں میں وہ دیر تک دیکھنے کی ہمت نہیں کر پاٸی اور فوراً سر جھکاگٸی اور اس کے اس قدر سر جھکانے پر ارحام کے لبوں پر دلفریب مسکان أٸی
مطلب مس عُروشہا کو خود سے محبت کروانے پر زیادہ محنت نہیں کرنی پڑیں گٸی
اب وہ سیدھا راستے کی اور دیکھ رہا تھا دل میں بڑبڑایا
وہ تینوں نیچھے أۓ تھے باھر کی جانب گٸے ارحام نے ڈراٸیونگ سیٹ سمبھالی اس کی ساٸیڈ والی سیٹ عُروشہا نے پچھلی سیٹ ضاور نے
ان کی گاڑی حویلی کے راستے پر چل دی
تارہ مجھے تانیہ ڈاکٹر کے بارے میں سب بتاٶ
ممتاز بیگم نے کال پہ تارہ کو کہاں تھا تانیہ کے خاندان کے بارے میں پتا کرنے کا کہ وہ کیسا خاندان ہے اور کون کون ہے۔۔۔۔ اس کے گھر کے افراد کتنے ہیں سب اور وہ أج شام کو ہی حویلی ممتاز بیگم کو سب بتانے أٸی تھی
بی بی جی تانیہ کے ماں باپ دو سال پہلے اللہ پاک کو پیارے ہوگٸے اور اس کے دو بھاٸی ہیں اور وہ دونوں ہی دُبٸی میں ان کا اچھا خاصا اپنا بزنس ہے ۔۔دو بھاٸیوں کی اکلوتی بہن ہیں ۔۔۔خود یہ اسلام أباد میں ڈاکٹر ہے جو کہ غریبوں کا مفت علاج کرتی ہے ۔۔۔ اس کا ایک بھاٸی پاکستاں أ رہا ہے کچھ دنوں میں وہ خود بھی اپنی بہن کے لیٸے رشتہ ڈھونڈہ رہے ہیں اگر اپ کہے گٸی تو میں ان کے بھاٸیوں سے بات کروں شایان بابا کے رشتے کے بارے میں
تارہ کی بات سن کر ممتاز خوشی سے جھوم اٹھی تھی کہ وہ اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہے ۔۔
ہاں ہاں تارہ جلدی کرو کہیں اس کا رشتہ کہیں اور نہ ہوجاٸیں اور یہ لو تم انہیں شایان کی تصویر دیکھانا ٹھیک ہے پھر مجھے فون پر بتانا
ممتاز بیگم نے خوشی سے شایان کی تصویر اس کو تھما دی اور وہ بھی خوش ہوتی ہاں میں سر ہلاتی حویلی سے باہر چلی گٸی
کیا تمھیں پیسے میں نے اسلیٸے دیٸے تھے کہ تم اپنی ناکامی مجھے اکر بتاٶ ہاں مجھے ارحام کی لاش چاہیے ورنہ میں تم سب کو جان سے مار دوگا
اگر دوبار فون کی اور یہ کہا کہ ارحام بچ گیا تو سوچ لینا اپنے انجام کا بھی گدھے کہی کے سب کے سب ایک نمبر کے نیکمے ہو
چوہدری سردار ہم تو اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں اس کو مارنے کی الگ الگ طریقوں سے لیکن اس کی قسمت اتنی اچھی ہے کہ وہ ہر بار موت کے منہ سے بج جاتا ہے
مجھے کچھ نہیں سُننا تم لوگوں کے بھانے اگر تم سے یہ کام نہیں ہوتا تو کہو میں خود اب یہ کام کروں گا
ولید بخش چوہدری فون پہ کسی سے چلا کر بات کر رہا تھا ان کا چہرہ غصہ سے پورا لال ہو رہا تھا یکدم فون کاٹ دی
چاہیے تمھاری قسمت کتنی ہی کیوں نا اچھی ہو ارحام سلطان میں تمھیں مار کر ہی دم لوگا
وہ نفرت سے انگار أنکھوں سے برساۓ خود سے پکا ارادہ کر چکا تھا
کیا ہوا ارحام یہاں کیوں گاڑی روک دی ہے
گاٶں کے بیچ راستے میں ارحام نے گاڑی روکی تو ضاور نے ونڈو سے باہر کا نظارہ دیکھ کر اس سے تعجب سے پوچھا
وہاں دیکھو مجھے اس أدمی سے ایک ضروری کام ہے تم میرے ساتھ چلو عُروشہا دو منٹ میں ہم أتے ہیں
کچھ فاصلہ پر ایک أدمی کھڑا تھا گاڑی کے شیشہ سے ارحام نے اس أدمی کو دیکھ کر ضاور کو کہا تو وہ ارحام کو گاڑی سے نکلتا دیکھ کر ضاور بھی گاڑی سے نکل گیا تھا پیچھے عُروشہا کو کچھ سمجھ نہیں أیا حالاکہ ارحام سے سوال کرنے سے وہ ڈر بھی رہی تھی سو بس سر ہاں میں ہلاتی رھ گٸی
ونڈو سے باہر کے نظارے دیکھنے لگٸی کھچی سڑک تھیں سڑک کے دونوں ساٸیڈ پر ساٸی ہریالی تھیں وہ چمکتی أنکھوں سے ارد گرد کے خوبصورت نظارے دیکھ نے لگٸی وہ کبھی حویلی سے اتنی دور یا پھر سڑک کے بیچوں بیچ کے مناظر کبھی نہیں دیکھ پاٸی
گاڑی سے اتر کر ساٸی ہریالی کو چوہداری طرف سے دیکھ رہی تھیں خوشی سے جھوم اٹھی اس کے لبوں پہ مسکراہٹ رقص ہوٸی اتنے عرصے کے بعد وہ یوں مسکراٸی تھی اچانک کسی کے أواز پر وہ پیچھے مڑی
کیا بیٹا أپ سردار أرحام کی زوجہ ہیں
بڑی عمر کی بزرگ عورت تھی جو لکڑی کے سارے سے چل رہی تھی اس نے عُروشہا کا سر تان پاٶں جاٸزہ لیتے مسکراتے کہا تھا
اس نے سر ہاں میں ہلایا وہ حیران کن اندازہ میں اس بزرگ عورت کو دیکھ رہی تھیں
سردار ارحام کتنے نیک انسان ہیں ان کی جتنی تعارف کی جاٸیں اتنی کم ہے ایسے الفاظ ہی نہیں ہے میرے پاس کہ ان کی تعارف میں بیان کر سکوں انہوں نے گاٶں میں اسکول بنوایا ہے اب ہمھارے گاٶں کا ہر بچہ دوسرے گاٶں میں پڑھنے نہیں جاۓ گا اپنے ہی گاٶں میں رھ کر پڑھاٸی کر سکتا ہے
میرے شوہر کو ایک حفتہ ہوگیا ہے ان کا انتقال ہوگیا میری ایک نوجوان بیٹی بنا شادی کے بیٹھی تھی میں بوڑی عورت کا کچھ بھروسہ زندگی کا نہیں تھا میں بہت پریشان تھی انہوں نے میری مدد کی اور میری بیٹی کی شادی شہر میں اچھے گھر میں کی میری ساری پریشانیاں ختم کر دی بھڑا ہی نیک بچہ ہے اللہ پاک انہیں بھی نیک اولاد عطا کریں
عُروشہا بغور اس بزرگ عورت کو دیکھ رہی تھیں اور دھیان سے اس کا کہا ہر الفاظ سن رہی تھی دور کھڑا ارحام کسی سے ضروری بات کرنے میں مصروف تھا وہ اس سے دیکھنے لگٸی
لیکن اماں وہ سردار ہیں ان کی زمیداری تھی اسلیٸے انہوں نے أپ کی مدد کی
ناجانے کیوں عُروشہا کا دل بار بار اس سے کہہ رہا تھا کہ ارحام بہت اچھا انسان ہے لیکن وہ اپنے دل کی أواز کو دبا رہی تھی اور عورت کو دیکھ کر کہا
نہیں بیٹا ہاں وہ سردار کی کرسی پہ ہے لیکن کہی ایسے سردار ہوتے ہے جو اپنے گاٶں والوں سے پہلے تو وعدے کرتے ہیں کہ ان کی خدمت کریں گٸے ان کے لیٸے ہر ضرورت کی چیزیں مھیا کریں گٸے تاکہ لوگ انہیں اپنا سردار بناٸے جب وہ سردار کی کرسی انہیں مل جاتی ہے پر وہ سب وعدے بھول جاتے ہیں پھر کیا کوٸی سردار غریبوں کی کوٸی مدد کرتا ہیں
بزرگ عورت کی باتیں عُروشہا کے دل کو لگٸی اس کے سامنے ولید بخش چوہدری کا چہرہ یاد أیا تھا کہ وہ بھی تو سردار ہے گاٶں کا وہ تو ایسا نہیں ہے اس کے ضمیر نے اس سے سچ سے اگاھ کیا تھا
اچھا بیٹا میں چلتی ہوں اللہ پاک ہمھارے پیارے سردار کا سایہ ہم سب گاٶں والوں پر ہمیشہ قاٸم رکھے أمین
دعا دیتی وہ بزرگ عورت لڑکھڑاتی لکڑی کے سہارے سے وہاں سے چلی گٸی لیکن عُروشہا کو سوچ میں ڈال گٸی تھی
کتنی ہی دیر عُروشہا کے دماغ میں اس عورت کی باتیں چلتی رہی نظریں دور کھڑے ارحام پر تھیں بلیک پینٹ شرٹ میں ملبوس تھا جس کا دودھیا سفید رنگ بلیک پینٹ شرٹ میں چمک رہا تھا
عُروشہا
ضاور گاڑی میں بیٹھ گیا تھا ارحام عُروشہا کو گاڑی سے باہر کھڑا دیکھ رہا تھا جو گہری سوچ میں ڈوبی ہوٸی تھی کہ ان کے أنے سے بھی بے خبر رہی جب ارحام اس کے روبرو کھڑا اس کے اگے ہاتھ لہرانے لگا چونک کر أٸبرو اچکاۓ اس سے پھٹی أنکھوں سے دیکھنے لگی
کیا ہوا تم ٹھیک تو ہو ۔۔ ارحام نے اس سے دیکھ کر کہا
ہاں
بس وہ اتنا کہتی یکدم گاڑی کا دروازہ کھول سیٹ میں بیٹھی
وہ بھی اپنے خیال کو جھٹک کر گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی حویلی کی جانب بڑھا دی
خالہ بی أپ نے میرے یارم کے کپڑے پریس کروانے دیٸے تھے وہ کہاں رکھے ہیں
مایا کچن کے دروازے پہ کھڑی زیبی سے پوچھ رہی تھی
وہ میرے کمرے میں ہے جہاں مہمانوں کا کمرے ہوتا ہے نہ اس کے داٸیں طرف میرا کمرے ہے الماڑی میں مایا بیٹی تھوڑی دیر میں۔۔۔میں تمھیں دیں جاٶں گٸی ابھی سالن چولہے پر چھڑا ہوا ہے اور اس کی اگ دھیمی بھی نہیں کر سکتی دیر ہو رہی ہے
خالہ بی کوٸی بات نہیں میرے کون سے ہاتھوں میں مہندی لگٸی ہیں جو میں خود نہیں لے سکتی
مسکراتے کہا تو زیبی بھی اس کی بات پہ مسکراٸی
مایا زیبی کے بتاۓ ہوۓ کمرے کی جانب چل دی یوٸی زیبی کے بتاۓ کمرے پر پہنچھی اندار داخل ہوٸی تھی پھر الماڑی کی جانب بڑھی الماڑی کھول اپنے کپڑے دیکھنے لگٸی
وہ اٹھا کر جیسے کمرے سے باہر جانے لگٸی
زیبی کا کمرہ حویلی کے باقی کمروں سے چھوٹا تھا ہلکا بیڈ الماڑی بھی نارمل تھی
اس کی نظر بیڈ کے نیچھے ایک صندوق پر پڑی
یہ کیا ہے ۔۔۔۔کپڑے بیڈ پر رکھے تھے نیچھے جھک کر ہاتھ بڑھا کر صندوق کو کھینچ کے باہر نکالا تھا اس کے اوپر دھول تھیں اس نےکمرے کا جاٸزہ لیا کپڑا کرسی پہ پڑا تھا اس سے اٹھا کر اس صندوق کو اوپر سے صاف کیا اس پر تعلا لگا ہوا تھا
صندوق میں تعلا کیوں لگا ہوا ہے ایسا کیا ہے اس میں کہ جو خالہ بی ہم سب سے چھپا رہی ہیں
وہ صندوق کو دیکھتے سوچنے لگٸی
تعلے کو کھولنے میں مایا ایکسپرٹ ہے
وہ خود سے مسکراتے ہوۓ بولی اور بالوں میں سے پن نکال کر اس کو کھولنے کی کوشش کرنے لگٸی بہت کوشش کرنے کے بعد جاکر اس سے وہ صندوق کھولا تھا
اس میں بہت سے پورانے پھٹے کپڑے تھے
اس میں تو ایسا کچھ نہیں جس وجہ سے خالہ بی کو اس کو تعلا لگا کر رکھا ہے
وہ جب اس صندوق کو بند کرنے لگٸی تھی کہ اچانک اس کی نظر ایک لکھے کاغذہ پر گٸی اس نے وہ اٹھا کر دیکھا
جیسے جیسے وہ لکھی تحریر پڑھ رہی تھی اس سے کچھ باتیں سمجھ أٸی کچھ نہیں اس نے اس کاغذہ کو اٹھایا اور جیسے صندوق بند تھا ویسے بند کردیا کپڑے اٹھا کر وہ کمرے سے باہر أٸی تھی
مطلب سلطان اور چوہدریوں کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے لیکن خالہ بی کیوں چھپا رہی ہیں یہ خط اور یہ خط چچا جان کا ہے کیا ان کو اس خط کا پتا ہے ۔۔۔یہ پھر وہ اس بات سے انجان ہے ۔۔۔۔اور کون کون انجان ہے ۔۔۔۔۔اور کیوں
مایا اپنے کمرے میں اکر اس کاغذہ کو دیکھ کر سوچ رہی تھی اس کے دماغ میں کہیں سوال تھے مگر جواب ایک بھی نہیں پہلے سوچا کہ وہ جاکر خود خالہ بی سے اس خط کے بارے میں پوچھے پر اس سے اس دن کی بات یاد أٸی تھی کہ ولید بخش نے کیسے ان کو دھمکی دی تھی اس کا صاف مطلب تھا کہ جو بھی اس خط میں تھا وہ حویلی کا ایک راز تھا
ارحام کی گاڑی حویلی کے اگے رکی تھی عُروشہا گاڑی سے اتری اندر جانے لگٸی تھی کہ ارحام نے اس سے اپنی طرف متوجہ کیا
عُروشہا رکو
وہ گاڑی سے نکل کے اس کے سامنے کھڑا ہوا تھا
شام ہورہی ہے لیکن میں اس بات کی تمھیں اجازت نہیں دیتا کہ تم رات حویلی میں گزاروں ۔۔۔رات کو تمھیں میں لینے أٶں گا اوکے
ارحام نے اس سے دیکھ کر سنجیدگی سے کہا اور اس سے بازٶں سے تھام کے اپنے قریب کیا تھا اس کی پیشانی پر پیار سے بوسہ دیا وہ یکدم أنکھیں اس کے لمس میں بند کر گٸی
اوپر چھت پہ کھڑا شایان نے یہ منظر بخوبی دیکھا تھا اس کی أنکھوں میں أنسوں أگٸے تھے زور سے ہاتھ دیوار پہ مارا تھا اور فورا وہاں سے اپنے کمرے میں چلا گیا
أپ اندر نہیں أٸیں گٸے
عروشہا نے امید بھری نظروں سے ارحام کو دیکھ کر کہا
نہیں تم جاٶ اپنا خیال رکھنا
وہ اس سے دور ہوتا گاڑی میں بیٹھ گیاتھا اور وہاں سے چلا گیا
عُروشہا کتنی دیر تک اس کی گاڑی کو دور تک جاتا دیکھ رہی تھیں
عُروشہا تم یہاں بیٹا
راشد کی أواز پر وہ چونک کے پیچھے دیکھنے لگی جہاں ان کی أنکھوں میں عُروشہا کو دیکھ کر خوشی تھیں
ارحام نہیں أیا
راشد نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا تھا اور ارحام کی گاڑی کو جاتا دیکھ کر پوچھا
نہیں بابا وہ نہیں أۓ میں نے کہا ان سے لیکن
ناجانے کیوں عُروشہا کا دل ارحام کے جانے سے اداس ہوگیا تھا
اس کےساتھ رہتے اس سے ایک ماہ ہو گیا تھا
کوٸی بات نہیں بیٹا تم اداس نہیں ہو اندر چلو تمھاری امی تمھیں بہت یاد کرتی ہیں ۔۔
وہ سر ہاں میں ہلا گٸی
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial