قسط 4
افسد جیسے اسٹیشن پہنچاں تھا اس سے ایک زور کا دھجکا لگا کیونکہ سامنے کا منظر ہی ایسا تھا سب ھولدار پریشانی کی عالم میں باھر کھڑے تھے
تم یہاں سب کیوں کھڑے ہو اندر أفس کا کام کیا تمھارا باپ کریں گا غصلے انداز میں دھاڑا
س سر اندر ۔۔۔۔۔۔
ھولدار ڈر سے پوار کانپ رہا تھا سہی سے بیچارا کچھ بول ہی نہیں پایا
اسپیکٹر اپنے قدموں کو أگٸے بڑھایا اور اندر داخل ہوا تھا دیکھتا ہے اس کی کرسی کی پیست سے ٹیک لگاۓ کوٸی بلیک کلر کی شلوار قمیص میں مرد بیٹھا ہے دونوں پاٶں ساٸیڈ والی کرسی پہ رکھے بڑے شان سے اپنی پرسنلیٹی بیان کر رہا تھا
چہرے پر نقاب پہنا ہوا تھا جس وجہ سے افسد کو سہی سے معلوم نہیں ہو پا رہا تھا کہ اخر اتنی جُرت کون کر سکتا ہے وہ بھی اس کے پولیس اسٹیشن میں أکے شان سے اس ہی کی کرسی پر پراجمان تھا
ٹیبل پہ زور سے ڈنڈا مارا غصلے میں اس کا پورا چہرہ لال ہو رہا تھا
او ہیلو مسٹر یہ میرا پولیس اسٹیشن ہے نہ کہ تمھارا گھر کس کی اجازت سے تم میری چیٸر پہ بیٹھے ہو ابھی کہتا ہوں اٹھوں یہاں سے ورنہ دونوں ٹانگیں توڑ کے ہاتھ میں دے دو گا
افسد کی اونچی أواز پر بھی سامنے والے شخص نے کوٸی رد عمل نہیں کیا وہ اس ہی پوزیشن میں بیٹھا تھا ویل چیٸر سے جھول رہا تھا جان بوجھ کر وہ اسپیکٹر کو تپانے لگا تھا اسے مزا أنے لگا
میں نے کیا کہا سناٸی نہیں دیا تمھیں مسٹر شاید بھرے ہوگٸے ہو
مگر وہ کوٸی ردعمل کرنے کو جیسے تیار ہی نہیں تھا پھر بھی وہ خاموش چیٸر پہ جھول رہا تھا اس کے ہاتھ میں پین تھی جس کے ساتھ کھیل رہا تھا کبھی اسے داٸیں تو کبھی باٸیں طرف کیۓ جا رہا تھا
اونچی أواز میں کہا اور اس شخص کے بلکل سامنے کھڑا ہوا
أواز نیچھیں رکھوں وہ کیا ہے نہ کہ ہمھارے سردار کو اونچی أواز میں بولنے والے لوگوں سے سخت نفرت ہیں اور جن سے ہمھارے سردار کو نفرت ہوتی ہیں ان کا بہت بھیانک انجام کرتے ہیں ہمھارے سردار
ضاور بلو پیٹ بلیک شرٹ زیب تن کی ہوٸی تھی وہ بھی اچھا خاصا ہیڈسم لگ رہا تھا افسد کے کندھے پر زور دیتے الفاظ چبا چبا کر کہتا اسے وارنگ دیں گیا تھا
جو بھی ہے تمھارا سردار میں تم جیسے لوگوں سے ڈرتا نہیں ہوں اور ایک اسپیکٹر کو دھمکانے کے جُرم میں میں تمھیں گھسیٹ کر صلاقُو کے پیچھے دکھیل سکتا ہوں وہ بھی دو منٹ میں
وہ بھی دوبدو اس ہی لہجے میں جواب دے گیا گومتی چیٸر پر بیٹھا شخص سب سن رہا تھا افسد اب ایک منٹ گزارے بغیر اس کی جھولی چیٸر کو رُوک دی خونخوار أنکھوں سے اس نے اسپیکٹر کی جانب دیکھا
دو منٹ کے لیے اسپیکٹر ڈر گیا اس کے اس طرح گھورنے سے یکدم دو قدم پیچھے ہوا چیٸر کو لات مارتے اٹھا جو اس کے ہاتھ میں پین تھی اس کا نشان بنایا اور دیوار پر لگی تھی جو کہ افسد کی تصویر پر پین کو پھینکا وہ سیدھا پین تصویر کی گردن میں لگی جیسے وہ پین نہیں کوٸی چاقو ہو
اسپیکٹر افسد شخص کی ساری کارواٸی دیکھتے اس کے رونٹھے کھڑے ہوگٸے نقاب پوش انسان اس کی طرف اپنے قدموں کا رُک کیا چہرے سے فورا نقاب ہٹایا
س سس سردار
ارحام سلطان کو اپنے سامنے دیکھتے اسپیکٹر کے سر پر أسمان گرا بے یقینی کے حالت میں ارحام کو تک رہا تھا اسے خوف سے کاپتا دیکھ کر ارحام کے دل کو ٹھنڈہ پہنچی
شیطانی مسکراہٹ لیے واپس کرسی پہ بیٹھا اسپیکٹر کا سر سے پاٶں تک جاٸزہ لینے لگا اس وقت اسپیکٹر بھیگی بلی نظر أ رہا تھا
ضاور زرا میری پسدید چیز لے أٶ
حکم دیتے ہی اس کی تعمیر بھی ہوٸی ضاور نے ایک تیز دار بلیڈ اس کے ہاتھ میں تھمایا
پتا ہے یہ کیا چیز ہے
وہ افسد کی جانب دیکھتے ہاتھ میں بلیڈ لیے گھورتے پوچھا
ج و ی
اس کا وجود پورا لرز رہا تھا خوف سے اخر خوف ہوتا بھی کیسے نہ سامنے بیٹھا شخص انسان کے اندر تک خوف طاری کرنے کا ماہر جو تھا
چلو میں بتا دیتے ہوں یہ تیز دار بلیڈ ہے کسی بھی انسان کو بے دردی چیر پھاڑ کردیتا ہیں اور ایسے مارنے میں کام أتا ہے کہ انسان تڑپ تڑپ کے اپنی جان دیں دیتا ہے بہت بھیانک موت دیتا ہے یہ بلیڈ
وہ اسے اور خوف دلانا چاہتا تھا جان بوجھ ایسی باتیں کر رہا تھا
۱۷ سال پہلے ایک لڑکا جس کی عمر دس سال تھی اس ہی پولیس اسٹیشن میں تم سے مدد مانگ نے أیا تھا یاد ہیں یا بھول گٸے ہو مسٹر افسد ولید بخش چوہدری کے پالتوں کُتے
وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور افسد کو خونخوار نظریں اس پر گاڑتے اسکے چوہداری چکر کاٹنے لگا
ایک تو اس کی اتنی بھیانک باتیں اوپر سے اس کا لہجہ بلیک کلر کی شلوار قمیص میں اس کا دوھیا سفید رنگ الگ چمک رہا تھا جو کہ اس وقت غصہ کی شدت سے پورا لال ہو رہا تھا
افسد کو حیریت کا جھٹکا لگا کہ جو سترہ سال پہلے ہوا تھا وہ سردار سلطان کو کیسے یاد ہے اور کیوں اس دس سال کے بچے کی بات کر رہا ہے
نہیں سردار جی مجھے بلکل بھی اس کا بات کا کوٸی خاص علم نہیں ہے
وہ صاف مکر گیا نفی میں سر ہلایا
جواب سن ارحام نے سختی سے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کی بلیڈ جو کہ اس کے ہاتھ میں تھا مٹھیاں بند کرنے کی وجہ سے تھوڑا سا کٹ اس کے ہاتھ میں لگا جہاں خون بہہ رہا تھا
رُکو ضاور ابھی میری بات کمپلیٹ نہیں ہوٸی
ضاور اس کے ہاتھ میں خون دیکھتے اس کی جانب قدم کیا لیکن ارحام سرد گھمبیر سے کہا تو وہی اس کے قدم پیچھے جم گٸے
ہاں تو افسد تمھیں یاد نہیں ہے اسلیۓ میں خود وہ کہانی پوری تمھیں سُناٶں گا
وہ اس کے کندھے پر دباٶں ڈال کے اپنے ساتھ لگاتے قدم باۓ قدم چلنے لگا
دس سال کا لڑکا ادھی رات کو تقریبن 11 بجے کے وقت یہاں مدد کے لیے أیا تھا ایک پولیس والے کے پاٶں پکڑ کے روتا سسکیاں لیتا رہا انکل باھر چل کے میری مدد کریں پلیززز میری مدد کریں مینتیں کرتا رہا
پتا ہیں پھر کیا ہوا پولیس والے نے کیا کیا اس کے ساتھ
افسد کو سرد نگاھ سے دیکھا جیسے جیسے وہ بولتا جا ریا تھا افسد کے ماتھے پر پسینہ نمودار ہوتا گیا پھٹی أنکھوں سے ارحام کو دیکھتا نفی میں سر ہلا گیا
اررے أپ کے کیوں پسینے چوٹ رہے ہیں میں نے تو بس اس دس سال کے بچے کی بات کر رہا ہوں ضاور زرا رومال دینا پولیس اسپیکٹر کو شدید رومال کی بہت جلد ضرورت پڑ سکتی ہے
ضاور سر ہلاتا اپنی جیب سے رومال ارحام کی جانب کیا افسد نے یکدم اس کے ہاتھ سے رومال لیتے ماتھے سےپسینہ رگڑ کے صاف کرنے لگا ہاتھوں کی کپکپاہٹ بتا رہی تھی کہ وہ بہت زیادہ ڈر گیا ہے
جی ہاں تو میں کہاں تھا وہ دس سال کا لڑکا روتا رہا مگر پولیس والے نے ایک نہیں سُنی اس کی مدد کرنے کے بجاۓ لڑکے کو جیل میں بند کردیا تاکہ وہ باھر نہ جاسکے اور جن لوگوں کی مدد مانگ نے أیا تھا پولیس والے کے أدمیوں نے ان لوگوں کو جان سے مار دیا تھا ثبوت بھی ایسے مٹاں دیٸے کہ جیسے لوگوں کو لگٸے کہ محص وہ ایک حادثہ تھا
ہوا بھی ایسا تھا کچھ دن کے بعد سب کو لگا وہ سب ایک حادثے کے شکار ہوۓ تھے پر بد قسمتی سے دس سال کا وہ لڑکا جس کو پولیس والے نے جیل میں بند کیا تھا اس نے سب اپنی أنکھوں سے دیکھا اور سُنا تھا پتا ہیں وہ لڑکا کون تھا
ٹانگ پر ٹانگ جماۓ بڑے مغرونہ شان انداز میں کرسی پر بیٹھااس نے نفی میں سر ہلایا سوال پر
وہ دس سال کا لڑکا أج تمھارے سامنے بیٹھا ہے
شھادت کے اگھلی سے اپنی جانب اشارہ کیا
افسد کے پیروں سے کسی نے زمین کھینچ لی ہو وہ شاکت کھڑا ارحام کو دیکھ رہا تھا
اور وہ پولیس والا کون تھا یو مسٹر افسد جہانگیر تم ہی تھے وہ
س سردار معاف کر دیجٸے مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگی مجھے سچ میں معلوم نہیں تھا کہ أپ حیدر سلطان کے پوتے ہیں ورنہ میں ایسی گستاخی کبھی نہیں کرتا
ارحام کے پیر پکڑتے روتے معافی مانگ نے لگا یکدم ارحام اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک زوردار لات اس کے منہ پر ماری وہ جاکے دور گرا تھا اس کی ناک سے خون نکلنے لگا تھا
ایک شرط پر تمھیں معافی ملے گٸی
جیب سے سگریٹ نکال جلا کے لبوں سے لگایا افسد کے پاس زمین پہ جھکا اور سگریٹ کے کش بھرتے اس کے چہرے پر دوھا چھوڑا تو وہ خاصنے لگا
ج جی سردار أپ کی ہر شرط مجھے منظور ہیں بس أپ ایک بار حکم تو کریں
ہممممم گڈ پہلی شرط کے جو ثبوت تم چُپا رہے ہو وہ شرافت سے دو
دوسری کہ پنجاٸیت میں سب کے سامنے تم اپنے منہ سے بکو گٸے کہ تمھیں ولید بخش چوہدری نے اپنے بیٹے کوبچانے کے لیے اپنا منہ بند رکھ نے کےلیے بہت بھاری رقم دی ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہوں گٸے کہ سجاد چوہدری نے ارحام سلطان کے گھر کی نوکرانی کے عزت پر ہاتھ ڈالتے وقت میں نے انہیں رنگھے ہاتھوں پکڑا تھا
سردار چوہدری صاحب میری جان لے لیگا
صدمہ میں کہا
وہ تمھیں صرف جان سے مارے گا اور میں تمھیں تڑپا تڑپا اس بلیڈ سے ماروں گا اب سوچ لو فیصلا تمھارے ہاتھ میں ہیں تڑپ تڑپ کر مرنا ہے یا سکون سے مرنا ہے ویسے بھی تمھیں مرنا تو ہیں چاہیے جیسے بھی مرو أخر سوچ لو میرا سگریٹ ختم ہونے تک کا وقت ہے تمھارے پاس اس کے بعد
وہ کہتا اس کے پاس سے اٹھ کر ٹیبل سے بلیڈ لہرانے لگا سگریٹ ختم ہونے کو تھا اور افسد کو اپنا سانس حلق میں اٹکھتا محسوس ہوا
ون ٹو تھری وقت اسٹاپ
گنتی ختم کرتے بلیڈ سے اس کی طرف بڑھا
منظور ہے سردار جیسا أپ نے بولا ہیں میں ویسے ہی کروں گا
ہاتھ جوڑتے اس کے أگٸے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا
اوکے تمھیں کب أنا ہے تمھیں ضاور بتاٸیں گا
اتنا کہتا باھر چل دیا اس کے پیچھے ضاور بھی ۔۔۔
امی کیا میں اندر أسکتا ہوں
ممتاز بیگم الماڑی میں کپڑے رکھ رہی تھی جب دروازے پر شایان نے اندر أنے کی اجازت لی
شایان تمھیں کب سے اپنی ماں سے اندر أنے کی اجازت لینی پڑ گٸی
ممتاز بیگم شایان کو دیکھتے تعجب نظروں سے پوچھا
جب سے أپ نے میرے ساتھ غیروں جیسا لہجہ اپنایا تب سے
بیڈ پر بیٹھتے ہی ممتاز بیگم کی جانب خفگی سے کہا
اور ایسا تمھیں کیوں لگتا ہے کہ میں تمھارے ساتھ غیروں جیسا رویہ رکھا ہیں،
ابھی بھی وہ اپنے کام میں مشغول تھی شایان کو دیکھے بینا ہی جواب دیا انکا اندازہ لاپراھ تھا
امی میں نے أپ سے کتنی مینتیں کی ہیں ایک بار تو اپنے بیٹے کی خوشی دیکھیں کیا میں أپ کا بیٹا نہیں ہوں میری خوشی کے خاطر چچی جان سے عُروشہا کے بارے میں بات چھیڑ دیں
شایان تم شاید بھول رہے ہو رشتے کی بات عورتیں نہیں کرتی اس حویلی کی اوپر سے مجھے عُروشہا پسند نہیں ہے میں تمھارے لیے اس سے لاکھ گُنہ خوبصورت لڑکی لے أٶں گٸی
ممتاز بیگم شایان کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے خوشی سے بولیں
نہیں امی مجھے کوٸی اور نہیں چاہیے مجھے بس میری عُروشہا چاہیے جب سے میں نے دنیا میں ہوش سمبھالا ہے بس اس سے ہی عشق کیا ہے اور أپ کہہ رہی ہیں کہ أپ میرے لیے کوٸی اور لڑکی دیکھیں گٸی امی میں مر جاٶں گا اگر عُروشہا میری نہیں ہوٸی تو پلیز امی میری بات سمجھنے کی کوشش کریں نہ
ممتا بیگم کا ہاتھ تھامکر مینتیں کرنے لگا وہ دونوں اس بات سے بے خبر تھے کہ کوٸی دروازے پہ کھڑا ان کی سب باتیں سن رہا ہے شایان کا ہاتھ ممتاز بیگم نے زور سے جھٹک دیا
ماں ہوں میں تمھاری شایان تمھارا بُرا کبھی نہیں چاہوں گٸی تمھارا دادا جان اس رشتے کو کبھی نہیں ماننے والے وہ خود رشتے کرنے والی تارہ خاتوں کو عُروشہا کے لیے چاہے جیسا بھی رشتہ ہو لڑکا لگڑا لولا بھرا کوٸی بھی چلے گا تمھارے داداجان نے کہا ہے بس عُروشہا کے لیے ایسا لڑکا بھی ڈھونڈھے
ممتاز بیگم کے الفاظ جہاں شایان کے پاٶں سے زمین کھینچی تھی ویسے باھر کھڑا انسان بھی چونکا تھا
امی یہ أپ کیا کہہ رہی ہیں رشتہ عُروشہا کا کب کس سے
ممتاز بیگم کی بات سے بے یقینی سے ممتاز کو دیکھ رہا تھا اخر ایک معبوب کو اس سے بھڑ کے کوٸی صدمہ ہوسکتا ہے کہ وہ جس سے اپنی ملکیت سمجھتا أیا ہے کہ ایک دن وہ اس کی ہوگٸی اس کے رشتہ کی بات سے کیسے وہ انسان ٹھیک ہو سکتا ہے
امی أپ مزاق کر رہی ہیں نہ تاکہ میں أپ سے عُروشہا کے لیے کچھ نہیں بولوں ہیں نہ امی کہیں نہ جو ابھی أپ نے بولا ہے وہ سب مزاق ہے
پاگلوں کی طرح ممتاز بیگم کے بازٶں کو جھنجھوڑ رہا تھا اس کی أنکھیں أنسوٶں سے بھر گٸی تھیں
شایان میں جھوٹی تسلی نہیں دوگٸی تمھیں اور میں کوٸی مزاق بھی نہیں کر رہی چاۓ دینے ابا جان کے کمرے میں جا رہی تھی جب میں نے انہیں راشد سے کہتے سُنا تھا میں کمرے کے باھر وہی دیوار سے لگ کھڑی رہی میں سب اپنے کانوں سے سن کر أٸی ہوں
ممتاز بیگم نرمی سے شایان کو سب بتاۓ جا رہی تھی اور شایان کی روح فنا ہونے کو تھی
نہیں امی میں عُروشہا کو کسی اور کا ہونے نہیں دوگا چاہیے مجھے اپنی جان کی ہی بازی کیوں نہ لگانی پڑۓ
زمین سے اٹھا کھڑا ہوتے ہی أنسوں گال سے أنکھوں سے صاف کرتے جنون اس کے انگ انگ میں نظر أ رہا تھا
پاگل ہو گٸے ہو نہ جانے ایسا کونسا جادُو کر دیا ہیں تم پہ اس منحوس عُروشہا نے جو تم اپنے دادا جان کے خلاف جا رہے ہو شایان تم ہمھارے اکلوتے بُڑھاپے کا سہارا ہو تمھیں اگر کچھ ہوگیا تو ہم کیسے جیٸے گٸے کبھی سوچا ہے تم نے اور ویسے بھی تم کیوں یہ سوچوں گٸے ہمھارے بارے میں ہم تمھارے لگتے ہی کیا ہیں
دھمکی لہجے میں کہا ممتاز بیگم بیڈ پہ بیٹھی تھی گھٹنوں کے بل بیٹھ ماں کی أنکھوں میں جھانکنے لگا جہاں بیٹے کو کھونے کا ڈر واضح نظر أیا اس سے
امی أپ مجھے اموشنل بلیکمیل کر رہی ہیں أپ چاہے جو بولوں لیکن میں اپنی سانسوں کے بغیر زندہ نہیں رھ سکتا اور شایان چوہدری کی سانسیں عُروشہا چوہدری کی دھڑکنوں میں بستی ہیں
ممتاز بیگم کا ہاتھ تھامتے پیار احترام سے انہیں سمجھانے لگا اپنی بات کہہ کرممتاز بیگم کا ہاتھ چھوڑ کر وہ کمرے سے نکل گیا وہ ہاتھوں میں سر دۓ پریشانی سے بیٹھی رہی
یارم تم یہاں اکیلے کھڑے کیا کر رہے ہو
یارم شہر أیا تھا کیونکہ جو کچھ عُروشہا کے ساتھ ہوا تھا اس وجہ سے اسکا دماغ سخت خراب تھا اس کو ڈر تھا کہ کہیں غصہ میں وہ کچھ غلط قدم نہ اٹھالے بعد میں پھچتانا پڑۓ خود کو سکون دینے کے لیے وہ سمندر کے کنارے کھڑا تھا شام کے وقت ڈوبتا سورج سمندر کے نظارہ کو دلکش حسین بنا رہا تھا مگر اس کے اندر وہ خوبصورت نظارہ بھی تکلیف کو کم نہیں کر پا رہا تھا
جب پیچھے سے مایا کی أواز پر وہ پلٹا گرین کلر کا فراک گھٹنوں سے تھوڑا اوپر تھا سفید کلر کا ڈوپٹہ اور چوڑیدار پجامہ زیب تن کیا ہوا تھا براٶن بال جو کندھے سے نیچھے تک أتے تھے دودھیا سفید رنگت ہاتھوں میں چوڑیاں پہنی ہوٸی تھی مایا کو چوڑیاں بے حد پسند تھی
وہ کبھی ہاتھوں سے چوڑیوں کو أزاد نہیں کرتی تھی گلابی ہونٹ أنکھوں کا رنگ نارمل چھوٹی سی ناک أدھے بال پونی میں بندھے کچھ بالوں کی لٹیں اس کے چہرے پر بار بار أ رہی تھی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے برابر میں أ کھڑی ہوٸی تھی
مایا کی ملاقات یارم شایان کی یونیوسٹی میں ہوٸی تھی وہ ایک ہی کلاس کے اسٹوڈنٹ تھے اور ایک دوسرے کے بہت اچھے مخلص دوست تھے مایا کی فیملی میں بس أس کا باپ تھا وہ اکلوتی تھی
مایا جب گل بانو کے پیٹ میں تھی ان کے ڈیلیوی بہت کرٹیکل ہوٸی تھیں جس وجہ سے وہ نہیں بچ سکی اور اللہ پاک کو پیاری ہوگٸی
تب سے شاہ زویر نے اپنی اکلوتی بیٹی کو بہت نازو سے پالا تھا
کچھ نہیں بس ڈوبتے سورج کو دیکھ رہا ہوں اور تم یہاں کیسے
حیریت سے اسے دیکھ پوچھا
تم شہر أٸیں ہو اور بتایا بھی نہیں وہ تو میں نے تمھاری شایان سے خیریت معلوم کرنے کے لیے کال کی تواس نے بتایا کہ تم کراچی أۓ ہو میں سمجھ گٸی تھی کہ تم کہاں ہوگٸے اور اسلیۓ تم سے ملنے یہاں چلی أٸی
اور مجھے معلوم تھا کہ تم مجھے یہاں ملوں گٸے اسلیۓ چلی أٸی
دھیمی سی مسکراہٹ چہرے پہ سجاۓ وہ یارم کو دیکھتی بولی تھی