قسط 2
امی….. چاچی…..
گھر پہنچ کر اس نے دروازے سے ہی آواز لگائی نسیم. بیگم. اور فرح بیگم دونوں ہی کچن میں مصروف تھی امن کی آواز سن کر دونوں باہر آئی
کیا ہوا بیٹا……
اس کی آواز دینے پر دونوں نے پریشانی سے کہا اس نے ہاتھ میں موجود مٹھائی کے ڈبے سے مٹھائی نکال کر باری باری دونوں کو کھلائی
میرا پرومشن ہوگیا ہے……..
وہ خوش ہوکر بتانے لگا تو وہ دونوں بھی خوش ہوگئی
اللہ کا بہت بہت شکر ہے ……..میرا بچہ اتنی محنت کرتا ہے آج اسے اس کا صلہ مل گیا
امی نسیم نے پیار سے اس کے چہرے پر ہاتھ رکھ کر کہا
امی یہ تو صرف شروعات ہے بس آپ دیکھتی جائے ابھی تو ایسے بہت پرومشن آنے والے ہیں
وہ ان کا وہی ہاتھ تھام کر فخر سے بولا
بلکل ……تم بھی تو منہ میٹھا کرو
انہوں نے مسکرا کر اسے مٹھائی کھلانی چاہیے لیکن اس نے ان کا ہاتھ روک دیا
زارا کہاں ہے چاچی.. …….
وہ اپنی چاچی فرح کی جانب دیکھ کر بولا
وہ ابھی کالج سے آئی نہیں لیکن بس آتی ہی ہوگی
انہوں نے مسکرا کر جواب دیا







آپ کا بل آپ کے شوہر نے ادا کردیا ہے میڈم
وہ شاپنگ ختم کرکے کاؤنٹر پر آئی تو یہ بات سن کر اس سے زیادہ اس کی سہیلیاں حیران ہوئی تھی حیرانی کی وجہ لفظ شوہر سے زیادہ بل ادا کردیا تھا کیونکہ انہوں نے بھی ابھی اپنی ساری جمع پونجی صرف کرکے شاپنگ کی تھی
کس نے….
اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا جہاں تک ا سکے علم میں تھا وہ تو شوہر نام کی ہستی سے ابھی تک محروم تھی
جی……… آپ کے شوہر نے…….
اب کے سامنے والے نے کہنے کے ساتھ انگلی کے اشارے سے بتایا تو وہ صوفی نے بجلی کی تیزی سے اس جانب دیکھا…… اسے وہاں سے نکلنے کی پوری تیاری میں دیکھ کر صوفی جلدی سے اس جانب بھاگی اور پیچھے اس کی سہیلیاں بھی …….
رکو……..
صوفی نے کہنے کے ساتھ ہی پیچھے سے اس کی شرٹ کو جکڑ لیا وہ پلٹ کر مسکرایا
کون ہو تم….
صوفی نے ماتھے پر ڈھیر ساری لکیریں لاکر پوچھا سامنے والا تو حیران نہیں ہوا البتہ اس کی سہیلیوں کا منہ ضرور بگڑ گیا اس کی لاعلمی پر……..اس کی لا علمی بناوٹی تھی وہ اسے اچھی طرح جان چکی تھی اور کہیں نا کہیں اپنے دل. میں جگہ بھی بنا چکی تھی اس کے لیت لیکن اس
راج نام تو سنا ہی ہوگا………
وہ مسکرا تے ہوۓ ہاتھ بڑھا کر بولا
خود کو شاہروخ خان سمجھتے ہو…. کافی دن سے دیکھ رہی ہوں میرا پیچھا کررہے ہو….
آپ جانتی ہے میں آپ کا پیچھا کررہا ہوں واہ چلیے کم سے کم آپ نے اسی بہانے ہمیں نوٹس تو کیا
وہ فورا بول پڑا
شٹ اپ….زیادہ سمارٹ بننے کی کوشش مت کرو ابھی پولیس کو فون کرونگی تو تمہاری ساری ہیرو گیری نکل جائگی
میں سمارٹ بننے کی کوشش نہیں کررہا میں سمارٹ ہوں لیکن اگر تم کہوگی تو سمارٹ نا بننے کی کوشش ضرور کرونگا تمہارے لیے تو کچھ بھی……
وہ بڑی آسانی سے آپ سے تم کا سفر پار کرگیا تھا
یہ لو تمہارے پیسے اور دفع ہوجاؤ …………
صوفی نے پرس سے پیسے نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھے اور آگے کو بڑھ گئی
سنو آگے بھی تو مجھے تمہارا خرچ اٹھانا ہی ہے تو میں بس اس کی پریکٹس کررہا تھا بعد میں کوئی پریشانی ہوئی تو مجھے مت کہنا
وہ اسے روک کر کہنے لگا اور خود اس کے سامنے سے ہوتا ہوا اپنی گاڑی پر اگیا
یہ پاگل ہے کیا……..
صوفی نے چڑ کر کہا
پاگل وہ نہیں تو ہے کیا ضرورت تھی پیسے واپس دینے کی
سانیہ نے اسکی بیوقوفی پر ڈانٹ لگائی
صوفی تو اسے اتنا اگنور کرکیسے لیتی ہے
ہاۓ اللہ اتنا ہینڈسم بندہ اگر مجھے آکر یہ سب کہے تو میں تو خوشی سے بے ہوش ہوجاؤں
امنہ کی بات پر وہ اسے ناگوارہ نظروں سے دیکھنے لگی
لیکن میں میں ہوں تم نہیں ……..شکر ہے…….اب چلو یہاں سے
وہ بات ختم کرتے ہوۓ باہر کی جانب بڑھی
سنو….. تم کہو تو ہاسٹل تک چھوڑ دوں……
ابھی وہ سڑک پر ہی پہنچی تھی کہ وہ بائک لے کر ادھمکا
میرا پیچھا چھوڑدو بس……
صوفی نے آنکھیں دکھا کر کہا
وہ تو ناممکن ہے اس زندگی میں……..
وہ مسکرا کر بولا اور اپنے راستے کی جانب بڑھ گیا












امن کالج پہنچا تو زارا شزا کے ساتھ باہر ہی نکل رہی تھی وہ وہیں رک گیا اور اس کے آنے کا انتظار کرنے لگا زارا مسکرا کر اسی طرف دیکھ رہی تھی تب امن بھی مسکرایا لیکن اس کے قریب آنے پر امن نے محسوس کیا کہ اس کی نظروں کا زوایہ کسی اور طرف ہے جب اس نے زارا کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو اس سے کچھ ہی فاصلے پر ضارم کھڑا کسی سے فون پر بات کررہا تھا امن نے حیران ہوکر دوبارہ زارا کو دیکھا اسے جس چیز نے حیران کیا تھا وہ زارا کی غیر معمولی مسکراہٹ تھی شزا اپنی گاڑی نکالنے لگی لیکن زارا بے دھیانی میں چلتی ہوئی آگے بڑھتی رہی امن ایکدم سے اس کے سامنے اگیا تو وہ دچک کر رک گئی
کدھر….
امن نے انکھیں بڑی کرکے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوۓ پوچھا
امن …تم کب آۓ…….
میری چھوڑو …..اپنی بتاؤ…….. کہاں دھیاں ہے تمہارا
وہ ابرواچکا کر بولا
کہیں نہیں بس یونہی……
وہ ایک اچٹی سی نظر ضارم پر ڈال کر سنبھلتے ہوۓ بولی لیکن امن نے مڑ کر ضارم کو دیکھا تو زارا کو ٹینشن ہونے لگی امن نے ضارم کے بعد دوبارہ زارا کو مشکوک نظروں سے دیکھا تب ہی شزا وہاں گاڑی لے کر پہنچی
شزا تم جاؤ…. میں زارا کو لینے آیا ہوں….اور سنبھال کر جانا…اوکے
امن نے شزا کو بتانے کے ساتھ تنبہہ بھی کی…. زارا اور وہ دونوں بچپن سے ساتھ پڑھتی تھی اور دونوں کے گھر بھی پاس ہی تھے زارا بھی اپنی سکوٹی سے کالج آتی تھی لیکن کل سے گاڑی خراب تھی اس لیے وہ شزا کے ساتھ انا جانا کررہی تھی
اوکے باۓ…..
شزا نے اپنے دوپٹے کو ترتیب دیکر دونوں کو باۓ کہا اور آگے بڑھ گئی
چلو….
امن نے زارا کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی بائک کی جانب لے گیا زارا چپ تھی کیونکہ اسے کچھ عجیب لگ رہا تھا امن کا انداز ………امن نے بائیک سٹارٹ کی تو وہ پیچھے بیٹھ گئی
کون ہے وہ لڑکا….
کچھ پل. کی خاموشی کے بعد امن نے سنجیدگی سے پوچھا امن کی سنجیدگی پر زارا مزید پریشان ہوئی کیونکہ وہ اس کے سامنے بہت کم ہی سنجیدہ ہوتا تھا
امن میں تمہیں کافی دنوں سے ایک بات بتانا چاہتی ہوں لیکن مجھے سمجھ نہیں ارہا تھا کہ میں تمہیں بتاؤ یا نہیں
کونسی بات…….
امن نے دھیرے سے کہا زارا چپ کرکے کچھ سوچنے لگی
وہ ضارم…. ہمارے کالج میں ہے….میرے سینیر ہے وہ…. اور
وہ رک رک کر بولی ڈر نہیں لیکن ایک جھجھک نے اسے روکا ہوا تھا
اور……..
اس کی خاموشی پر امن نے گاڑی کی سپیڈ سلو کرتے ہوۓ کہا
مجھے …بہت اچھے لگتے ہیں وہ………
اس نے ہمت کرکے کہا امن نے ایکدم سے بریک مار کر بائیک روکی شدید جھٹکے پر زارا نے گھبرا کر اسکی شرٹ پکڑ لی اور سنبھل کر بائک سے اتری اب وہ امن کا چہرہ دیکھ رہی تھی جو ہمیشہ کے مقابلے اسے بے حد سنجیدہ لگ رہا تھا وہ لوگ جس جگہ کھڑے تھے وہ ایک سنسان سڑک تھی اس پاس کوئی نہیں تھی
یہ تم کیا کہہ رہی ہو زارا…… تم……
وہ صدمے سے کیفیت میں بولا زارا اسے حیرانی سے دیکھنے لگی
کتنی آسانی سے کہہ دیا تم نے کہ اسے پسند کرتی ہو تم……… ایک بار بھی نہیں سوچا میرے بارے میں….کہ یہ سن کر مجھے کیسا لگے گا
امن…..
زارا نے اس کے لہجے اس کے انداز پر حیران ہوکر اسے پکارہ جب کہ امن اسے شکایتی نظروں سے دیکھ رہا تھا
بچپن سے لے کر آج تک ہم ساتھ ہے ہر خوشی ہر دکھ ہم نے شئیر کیا ہے کیا تم نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ میں…..میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں
ایک پل کے لہے اس کی زبان لڑکھڑائی تھی لیکن لہجہ بےحد سنجیدہ تھا
یہ تم کیا کہہ رہے ہو امن…….
زارا کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی
وہی جو تم سن رہی ہو بچپن سے میں تمہیں دیوانوں کی طرح محبت کرتا آیا ہوں اور اج تم………… تم کسی اور کے بارے میں سوچ بھی کیسے سکتی ہو زارا
اس کے لہجے میں بے حد ادسی تھی
تم مزاق کررہے ہو نا امن……
زارا جتنا اس کی طبیعت سے واقف تھی اب بھی اس بات پر یقین نہیں کررپارہی تھی
مزاق…. تمہیں یہ سب مزاق لگ رہا ہے….. میرا پیار میری فیلینگز سب مزاق لگ رہا ہے تمہیں……… میں نے تمہیں اتنا پیار کیا اور تم………
وہ بائک سے اتر کر اس کی جانب بڑھتا ہوا غصے سے بول رہا تھا جو کہ زارا نے پہلی دفعہ دیکھا تھا اسلیے خوفزدہ ہوکر آنکھیں نیچی کرگئی امن اس کے آگے بول نہیں پایا اور ایکدم سے اس کی ہنسی چھوٹ گئی وہ اس کی شکل دیکھ کر پاگلوں کی طرح ہنسنے لگا جب کہ زارا کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ امن کسی وجہ سے ہنس رہا ہے یا واقعی صدمے سے پاگل ہوگیا ہے
شکل دیکھو اپنی…… تمہیں سچ میں لگتا ہے میں تم سے پیار کرونگا…. آۓ واس جس جوکنگ یار …..
وہ بےتحاشہ ہنس رہا تھا اور زارا کا چہرہ سرخ ہورہا تھا
تم سے پیار کرنا تو دور اس بارے میں سوچ کر ہی مجھے ڈر لگتا ہے
وہ. ہنسنے کے دوران بولا
امن…..
وہ اسے گھور کر بولی
سیریسلی یار…… تم…… ایک نمبر کی بیوقوف ہو تم…. …تم مجھے …….
ہنسنے کی وجہ سے وہ بات تک نہیں کرپارہا تھا
امن کے بچے میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں کچا چبا جاؤنگی تمہیں
زارا نے اسکی شرٹ کو اپنی مٹھی میں جکڑ کر اپنی جانب کھینچا اور اس طرح دیکھا جیسے واقعی ابھی اسے کھا جائگی امن نے ایک کوشش سے اس کا ہاتھ جھٹک کر اپنی شرٹ چھڑوالی جس سے اس کے اوپری دو بٹن مزید کھل گئے
دیکھا بھوکی بلی کی طرح مجھے کھانے کو دوڑتی ہو…. اپنی موت سے کوئی پیار کرسکتا ہے بھلا.. سوری مس زارا لیکن امن ایوب مرزا کے ابھی اتنے برے دن نہیں آۓ
وہ شرٹ کے بٹن بند کرکے بالوں پر ہاتھ پھیر تے ہوۓ سٹائل سے بولا زارا خاموش ہوکر اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی
ایسے نا مجھے تم دیکھو
سینے سے لگا لونگا
تم کو میں چرا لوں گا تم سے
دل میں چھپا لونگا
وہ اس کے مسلسل دیکھنے پر شرارت سے مسکراتے ہوۓ گانے لگا اور ساتھ ہی گانے کے مطابق ایکشن کرتے ہوۓ اپنا ہاتھ سینے پر. رکھا زارا نے منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر جانے اسے کیا کہا امن بائیک پر بیٹھا اور بائیک سٹارٹ کرلی
چلوگی یا میں جاؤ……
وہ اس کی جانب جھک کر بولا
جاؤ مجھے نہیں آنا …….تم ہمیشہ…….
وہ. ہاتھ باندھ کر رخ موڑ گئی
زارا چھپکلی….
امن اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی چلایا
ک… ک… کہاں ہے
وہ گھبرا کر اچھل پڑی
تمہارے پیر کے پاس… جلدی بیٹھو
زارا جلدی سے بائک پر بیٹھ گئی تو امن نے گاڑی آگے بڑھالی وہ اگے جانے تک اس جگہ کو دیکھتی رہی جہاں اسے کوئی چھپکلی نظر نہیں آئی ائینے میں امن کی مسکراہٹ دیکھ کر اسے سمجھنے میں دیر نہیں لگی
جھوٹ بولا نا تم نے…. آۓ ہیٹ یو…….
وہ غصے سے بولی
اب تم وہاں کھڑے ہوکر میرا ٹائم ویسٹ کرتی اس سے بہتر تو یہی تھا نا
تم بہت خراب ہو…….
اس نے خفگی سے کہنے کے ساتھ اس کے کاندھے پر اپنے ناخن گاڑنے کی کوشش کی… امن نے درد ہونے پر لب بھینچ لیے
افففف……اللہ بچاۓ تمہارے ظلم سے…… بڑی ہی پھوٹی قسمت پائی ہے بے چارے لڑکے نے….
وہ ایک بار پھر اسے ضارم کو لے کر چڑھانے لگا
اس کی تو صرف پھوٹی ہے لیکن جسے تم ملوگے نا اس کی تو کباڑ جیسی قسمت ہوگی پتہ نہیں کون گدھی ہوگی جو تم جیسے گدھے کو چنے گی
اس نے امن کے ہی انداز میں جواب دیا
ہوگی کوئی پیاری سی معصوم سی جو میرے خواب میں اتی ہے گورے گورے گال لمبے لمبے بال بڑی بڑی انکھیں خوبصورت تراشا ہوا بدن ہر بار بنا چہرہ دکھاۓ غائب ہوجاتی ہے
وہ مدہوش لہجے میں بولاجب کہ لب مسکرا رہے تھے
سنبھالنا ہوسکتا ہے چہرہ دیکھنے پر پتہ چلے کہ کوئی بندریا ہے اگر ایسا ہوا تو تیرا کیا ہوگا کالیا
زارا نے اس کے کان کے قریب ہوکر کہا
کچھ نہیں… اتنے سالوں سے تمہیں جھیل رہا ہوں نا اچھی پریکٹس ہوچکی ہے اب اس کے ساتھ آرام سے اڈجیسٹ ہوجاؤنگا
امن نے سنجیدگی سے جواب دیا جسے زارا کو سمجھنے مین چند پل لگے
تم. نے مجھے بندریا کہا
وہ غصے سے بولی تو ہنس دیا
میں نے تو نہیں کہا تم نے کب سن لیا
وہ. لوگ گھر پہنچ چکے تھے اس نے گاڑی روک کر کہا زارا جلدی سے اتر گئی
زیادہ بنو مت سب سمجھ رہی ہوں میں ……
وہ اسے ہاتھ دکھا کر بولی اور اسے گھورتے ہوۓ منہ چڑھا کر اندر جانے لگی امن اس کے انداز ہر مسکرا دیا
لیجیے آگئے دونوں…….
جیسے ہی وہ دونوں اندر آۓ نسیم نےفرح کو متوجہ کیا وہ دونوں کب سے ان کا انتظار کررہی تھیں
کہاں رہ گئے تھے بیٹا کتنی دیر کردی
فرح نے آگے بڑھ کر کہا
کیا بتاؤ چاچی…… اس کی وجہ سے ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے رہ گیا
وہ معصوم شکل بنا کر بولا فرح حیران ہوئی جب کہ زارا تو اچھی خاصی صدمے کا شکار ہوگئی
امی جھوٹ بول رہا ہے یہ…….
اچھا…. چاچی یہ دیکھیے کتنی زور سے ناخون مارے ہیں اس نے میں جھوٹ بول رہا ہوں لیکن کیا یہ نشان بھی جھوٹے ہے
شرٹ کے دو بٹن کھلے تھے اس نے آسانی سے شرٹ کو کندھے سے نیچے کرکے ناخن کے نشان بتاۓ جسے دیکھ کر فرح نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا جب کہ نسیم مسکرائی کیونکہ وہ اپنے بیٹے کی شرارتوں سے بخوبی واقف تھی جو زارا کو تنگ کرنے کا ایک موقع نہیں چھوڑتا تھا
اور اپنی بھی بتاؤ تم نے کیا کیا……..
زارا نے اسے اس کی حرکت یاد دلائی لیکن وہ ڈھیٹ بنا اسے دیکھنے لگا
کیا کیا….
وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر اسے دیکھتے ہوۓ بولا
امی اس نے…
وہ فرح کی جانب دیکھ کر بولنے لگی لیکن ایکدم سے چپ ہوگئی وہ بھلا کیسے یہ بات بتا سکتی تھی جس میں ضارم بھی شامل تھا
بولو کیا کیا میں نے….
وہ معصوم شکل بناۓ پلکیں جھپکا کر بولا
امن کے بچے….
وہ اس کی چالاکی پر اسے مارنے کو دوڑی لیکن فرح نے اس روک لیا
زارا کیا ہر وقت لڑتی رہتی ہو کبھی تو بچے کو چین سے رہنے دو اور آج تو اس کے لیے اتنی بڑی خوشی کا دن ہے
فرح نے اپنے بچے کی سائڈ لی تو وہ مزید سلگ گئی
کیوں اج کچرے والوں نے اپنے کچرے کو پہچان لیا کیا
وہ اسے چڑاتے ہوۓ بولی تو امن نے اسے انکھیں دکھائی وہ فورا نسیم کے پیچھے چھپ گئی
امن……. زارا آج امن کا پرومشن ہوا ہے اسی لیے تو وہ تم کو بتانے اتنی جلدی میں گھر سے نکلا تھا
امن کو روکتے ہوۓ انہوں نے زارا کو بتایا
رئیلی……..
اسے واقعی بے حد خوشی ہوئی
کانگریٹس……. دیکھا میرے ساتھ رہوگے نا تو ایسے ہی ترقی ملتی رہے گی
وہ اس کے سامنے ہاتھ بڑھاتے ہوۓ بولی جسے امن نے تھامنا چاہا تو زارا نے پیچھے کر لیا
بس بس شکریہ کی ضرورت نہیں…..
وہ اسے دیکھ کر بولی
دیکھا چاچی….
وہ. معصوم شکل بناۓ بولا تو فرح نے زارا کو گھورا
تو پھر اب اس پرموشن میں مجھے بھی حصہ ملنا چاہئے
وہ نسیم کو دیکھ کر بولی
کیا چاہیے تمہیں….
نسیم نے پیار سے کہا
میں نے اس دن بہت ہی اچھی ڈریس دیکھی جب شزا کے ساتھ شاپنگ پر گئی تھی میں وہ خرید لوں
وہ خوش ہوتی ہوئی بولی
بلکل….
نسیم نے پیار سے اس کا چہرہ تھام کر کہا
زارا……
فرح نے اسے روکنا چاہا
چاچی..
امن نے فرح کو روک دیا اور اپنے پینٹ کی جیب سے کارڈ نکال کر اسے دیا
یہ لو رکھ لو جو چاہے خرید لینا
وہ. سنجیدگی سے پر مسکرا کر بولا وہیں زارا حیران ہوئی
ارے واہ آج تو سیدھے کارڈ پکڑا دیا سوچ لو لاکھ دو لاکھ کی شاپنگ بھی ہوسکتی ہے
زارا نے اسے ڈرانے والے انداز میں کہا
نہیں ہوسکتی …….کیونکہ کارڈ بلاکڈ ہے
وہ. سنجیدگی سے بولا اور ہنس دیا زارا جھلا کر اس کے پیچھے بھاگی تو وہ فورا اوپر اپنے کمرے کی جانب بھاگا اور روم میں بند ہوکر دروازہ بند کرلیا
امن……….
زارا نے چلاتے ہوۓ چڑ کر دروازے کو لات ماری جو اسے ہی لگی تو آہ کرتی ہوئی اپنے روم میں اگئی
امن …نسیم اور ادنان کے کمرے اوپر تھے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا گیسٹ روم بھی تھا جب کہ زارا اور اس کے امی ابو کے کمرے نیچے تھے اور نیچے ہی کچن تھا باہر چھوٹا سا صحن جس پر گھاس کی سبز چادر بچھی ہوئی تھی دو مرحلو کا یہ گھر چھوٹا مگر بیت خوبصورت تھا