ہمنوا

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 5

اس دن ان کے ایک کالج میٹ کی برتھ ڈے پارٹی تھی صوفی راج کے ساتھ ہی اس پارٹی میں آئی تھی اور اسے راج کے ساتھ ہی واپس جانا تھا لیکن وہ اپنے دوستون کے ساتھ بیٹھا شراب پی رہا تھا صوفی نے اسے کل ہی شراب پینے پر دو کلو تقریر کے ساتھ شراب بند کرنے کو کہا تھا لیکن آج اس نے ساری حدیں توڑ دی تھی اس لیے وہ آگ بگولہ ہوئی کھڑی تھی
ہاۓ صوفیہ…………….
ایک لڑکی الیشا نے اترانے والے انداز میں آتے ہوۓ کہا
ہاۓ
صوفی نے بے نیازی سے جواب دیا اور دوبارہ راج کی جانب دیکھنے لگی
اکیلی کیوں کھڑی ہو…. کمال کی بات ہے کالج کے سب سے ڈمانڈنگ بندے کو پھنسا کر بھی اکیلی ہو
الیشا نے طنزیہ ہنستے ہوۓ کہا
تمیز سے بات کرو…..اور اگر نہیں اتی تو چپ ہی رہو اچھا ہوگا تمہارے لیے
صوفی کی اس کی بات پر مزید غصہ اگیا
اوہو لگتا ہے برا لگ گیا… لیکن کیا کریں کہتے ہیں سچائی بری لگ ہی جاتی ہے…….
وہ دوبارہ بولی صوفی نے رخ اس کی جانب کیا اور دونوں ہاتزح باندھ کر اسے دیکھنے لگی
نہیں لگتی بتاؤ کیسے… اب اگر میں تمہیں کہونگی کہ تم یہ میک اپ کرکے جو اتراتی پھرتی ہو تو کوئی فائدہ نہیں تم اس میں بلکل بھوتنی لگتی ہو تمہیں برا لگے گا کیا…….. اگر میں کہونگی کہ تم راج کے پیچھے پیچھے بکری کی طرح گھومتی ہو لیکن وہ تمہین لفٹ نہیں کرواتا تو تمہیں برا لگے گا کیا نہیں سوئٹ ہارٹ سچائی بری نہیں لگتی ہےنا…….
صوفی نے اس پر پلٹ وار کیا تو وہ جھلا گئء
جسٹ شٹ اپ………………..
کیا ہوگیا ہے …….تم. میرے ساتھ آؤ صوفی
دونوں کو بحث کرتا دیکھ اس کی دوست ان کے پاس آئی اور ہاتھ پکڑ کر اسے دوسری جانب لے گئی
صوفی تم تو جانتی ہو نا کیسی ہے وہ کیوں اس کے منہ لگتی ہو جانے دو……
تم سہی کہہ رہی ہو رابی…. تم پلیز راج کو بلا دوگی مجھےجانا ہے بہت تھک گئی ہو
وہ منہ بنا کر بولی
تم اب تک اسے راج ہی بلاتی ہو …ہے نا……. میں اسے ابھی..بلاتی ہوں
اس نے مسکراکر کہا تو صوفی بھی مسکرادی
بہت شریف بنتی ہے نا اسے تو میں آج بتاتی ہوں
الیشا نے دور سے ہی اسے دیکھ کر دانت پیستے ہوۓ کہا شیطانی ترکیب اس کے دماغ میں جنم لے چکی تھی جس پر اسے عمل. کرنا تھا اس نے ویٹر کو بلاکر کچھ کہا
میم………
ویٹر گلاس لیے اس کے پاس آکر بولا جس میں اس نے الیشا کے کہنے پر جانے کیا ملایا ہوا تھا
تھینکیو……….
اس وقت اسے شدید ضرورت تھی کولڈڈرنک کی اس لیے اس نے گلاس اٹھالیا اور منہ سے لگاکر گٹاگٹ پینے لگی چند گھونٹ گلے سے اترتے ہی اسے عجیب سا ذائقہ محسوس ہوا اس نے گلاس پیچھے کرلیا اور بمشکل منہ میں موجود کولڈڈرنک نیچے اتاری
کیا ہوا صوفی…………..
وہ چکر آنے پر لڑکھڑائی تو راج نے اسے سنبھال کر کہا
پتہ نہیں چکر ارہا ہے…….. پلیز مجھے یہاں سے لے چلو جلدی
وہ سر تھام کر بولی راج اسے لیے باہر آیا اور ٹیکسی لے لی کیونکہ وہ خود بھی اس وقت گاڑی چلا کر نہیں جا سکتا تھا
وہ ہاسٹل پہنچے تو راج اسے سنبھالتا ہوا کمرے میں لے آیا اور وہ اتے ہی بیڈ پر گرپڑی اور ساتھ ہی راج کو گرادیا شراب کا نشہ اس کے زہن پر چڑھنے لگا تھا یہ راستے میں ہی راج نے محسوس کرلیا تھا وہ راج کو دیکھ کر ہنسنے لگی
کیوں ہنس رہی ہو
راج نے بند ہوتی انکھوں کو کھول کہا
تمہاری دو دو ناک ہے……..
وہ ہنستے ہنستے اس کی ناک کو چھو کر بولی راج اسے دیکھتے ہوۓ بولنے لگا
صوفی میں تمہیں ایک بار کس کرلو………
صوفی کا ہنسنا رک گیا اور وہ اسے غور سے دیکھنے لگی ……… اس کی آنکھیں بار بار بند ہورہی تھی
نئئی…………
وہ گردن ہلاتے ہوۓ نہیں کو کھینچ کر بولی
……..برتھ ڈے والے دن کس کرتے ہیں نا مجھے بھی کرنا ہے
راج بھی شراب کے نشے میں اپنے حواس گم کرچکا تھا
برتھ ڈے والے دن کس کرتے ہیں
وہ معصومیت سے سوال کرتے ہوۓ بولی
ہاں…….
راج نے اس کی. کمر پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا
اوکے ….کرلو…
وہ مسکرا کر بولی راج نے اس کے ہونٹوں کو دیکھتے ہوۓ چہرہ اس کے قریب کیا
رکو ……..
وہ ایکدم سے راج کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولی
لیکن آج تمہارا برتھ ڈے تھوڑی ہے آج تو رابی کا برتھ ڈے ہے نا ……تو مجھے اسے کس کرنا تھا نا…..رکو میں اسے کس کرکے آتی ہوں
وہ دماغ پر زور ڈالتے ہوۓ بولی اور اٹھنے لگی راج نے اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے اپنے اوپر گرالیا
رابی کا برتھ ڈے تو اوور ہوگیا میرا برتھ ڈے تو اۓ گا نا ابھی کچھ دن میں تو ایڈوانس میں کردو
وہ اس کے لبوں کو دیکھتے ہوۓ بولا اور اسے مزید قریب کیا……ایک ہاتھ سے اس نے سائڈ لیمپ کا بٹن ببد کردیا جس سے کمرے میں گہرا اندھیرا چھا گیا وہی اندھیرا جو بعد میں صوفی کا نصیب بن گیا
صبح کے سات بج رہے تھے جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ بنا کسی لباس کے راج کے حصار میں تھی اس نے ایک جھٹکے سے راج کا ہاتھ ہٹایا اور اٹھ بیٹھی اس عمل سے راج کی نیند بھی کھل گئی وہ بھی فورا اٹھا صوفی بےجان سی ہوکر بیٹھی رہی وہ لمحہ اس کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھا بے ہوشی کے عالم میں جو گناہ ہوا تھا ہوش آنے پر اس کا احساس ہورہا تھا اس کی سمجھ نہیں ارہا تھا کس طرح وقت کو چند گھنٹے پیچھے لے جاکر اس رات کو مٹادے جو اس کی زندگی میں کالی رات بن کر آئی تھی جس مان جس بھروسے کے ساتھ اس کی ماں نے اسے ڈاکٹر بننے بھیجا تھا وہ مان ٹوٹ گیا تھا وہ خود کی نظر میں بھی گرچکی تھی چندہی لمحے لگے اسے یہ احساس ہونے کو کہ کتنی بڑی غلطی ہوئی تھی اس سے وہ دونوں ہاتھ چہرے پر رکھے رونے لگی راج نے اس کے ہاتھ ہٹاکر اس کا سر اپنے کاندھے پر رکھا
پلیز مت رؤوں صوفی………… آۓ ایم سوری……
اس نے سمجھاتے ہوۓ کہا
بہت بڑا گناہ ہوگیا ہم سے راج……
وہ اس سے الگ ہوکر بولی
ہاں گناہ تو ہوا ہے لیکن اب رونے سے تو کچھ ٹھیک نہیں ہوگا نا………. تم فکر مت کرو میں بہت جلد تم سے شادی کرونگا……….
وہ اس کا چہرہ تھامتے ہوۓ بولا
تم کبھی مجھے چھوڑ کر تو نہیں جاؤگے نا راج….
اس کے دل کا ڈر اس کی زبان پر اگیا
نہیں…….. کبھی نہیں جاؤنگا …..ایسا کبھی سوچنا بھی مت کہ میں کبھی تمہارا ساتھ چھوڑ دونگا ………بہت جلد ہم ایک ہوجائنگے… وعدہ ہے میرا
اس نے یقین دلایا تھا اور صوفی کو تو اس کی ہر بات پر یقین تھا وہ شاید ہنر رکھتا تھا اس طرح بات کرنے کا کہ وہ یقین کرہی جاتی تھی لیکن اب اسے علم ہوا تھا کہ کتنے جھوٹے تھے اس کے وعدے جو اتنی جلدی توڈ کر گیا تھا جس وقت اسے سب سے زیادہ ضرورت تھی یہ زخم اسی کا دیا تھا جسے وہ مزید گہرا کرگیا تھا صوفی کو اب اس سے دل سے نفرت محسوس ہونے لگی تھی اسی کی وجہ سے تو صوفی کی زندگی اتنی بدل گئی تھی اس کی امی بھی بیمار رہنے لگی تھی
انہیں اس نئی جگہ شفٹ ہوۓ ایک ہفتہ ہوچکا تھا نیا شہر نۓ لوگ نۓ راستے مگر زخم وہی تھے پرانے جو کسی طرح ختم. ہونے کو تیار نہیں تھے
💜💜💜💜💜💜💜💜💜
امن جلدی سے اٹھ کر باہر نکل گیا اس نے انور کو بس سٹاپ پر پک کرنے کا کہا تھا کیونکہ وہ شہر میں نیا تھا اور گاؤں کا تھا اسلیے امن نے سوچا کہیں کوئی گڑبڑ نا ہو اسلیے اسے خود ہی لینے چلا گیا اسے دیکھنے کے بعد امن کو کافی حد تک یقین ہوگیا کہ مصیبت میں اضافہ ہوگیا وہ اسے اپنے ساتھ گھر لے آیا وہ تقریبا امن کی ہی عمر کا تھا مگر بات کرنے کا انداز کسی بچے جیسا تھا بالوں میں چمیلی کا تیل لگاکر گہرے نیلے رنگ کی شرٹ پر بلیک پینٹ پہنے کپڑوں کی بیگ کو دونوں ہاتھوں سے سینے سے لگا کر پکڑے بڑی شان سےچلتا ہوا امن کے ساتھ آیا
امن جلدی جلدی چل کر اندر چلا گیا جب کہ وہ اپنے سامان میں الجھ کر پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوۓ آگے بڑھنے لگا
شزا زارا کے ساتھ پڑھنے یہیں اگئی تھی اور اب واپس جانے کے لیے نکلی تھی لان تک ہی پہنچی تھی کہ سامنے سے آتے انور کو جس کا چہرہ بیگ سے چھپا ہوا تھا حیرت سے دیکھنے لگی انور لڑکھڑا کر چل رہا تھا شزا کے احتیاط کے باوجود اس کا دھکا شزا کو لگا جس سے وہ زمین پر گر گئی
یا اللہ…….
اس کہ منہ سے زور سے نکلا جس پر انور نے بیگ سائڈ میں لے کر اسےدیکھا
معاف کیجیے گا ہم نے آپ کو دیکھا نہیں……
وہ شرمندگی سے بولا اور مسکرانے لگا شزا نے جب اسے ہنستے دیکھا تو جل کر رہ گئی
کھڑے کھڑے دانت کیا نکال ہو اٹھاؤ مجھے….
اس نے زوردار آواز میں کہا تو انور ہڑبڑا کر اسکا ہاتھ پکڑ کر اٹھانے لگا شزا نے اٹھ کر اپنا بازو سہلایا
اففف اللہ…. اندھے ہوکیا….. انکھیں ہے یا بٹن
ہے تو انکھیں ہے لیکن دیکھ نہیں پاۓ آپ کو جلدی جلدی میں
وہ. معصومیت کے تمام ریکوڈ توڑتے ہوۓ بولا
انور……
اس کی دیری پر امن نے اسے اندر سےاواز لگائی
جی بھیا……. امن بھیا کے دوست ہے ہم
وہ امن کو جواب دے کر شزا سے بولا
تو. میں کروں…… ہٹو میرے راستے سے
وہ جھنجلا کر بولی تب ہی امن وہاں اگیا
کیا ہوا………
دونون کو الجھے دیکھ کر پوچھا
تمہارے دوست بھی بلکل تمہاری طرح ہے بددماغ
دیکھتے کدھر ہے چلتے کدھر ہے
وہ امن کی جانب دیکھ کر غصے سے بولی اور انور کو گھورتی ہوئی باہر چلی گئی
امن نے اسے حیرت سے دیکھا اور کاندھے اچکا کر انور کی جانب رخ کیا لیکن انور اب بھی شزا کو جاتے ہوۓ دیکھ رہا تھا
انور میاں… لوٹ آئے…. کہاں گم ہے آپ کے ہوشوحواس
امن اس کے اگے ہاتھ لہراتے ہوۓ بولا
کیا بتائے بھیا… پہلی بار کسی لڑکی کو دیکھ کر دل میں گھنٹیا بج رہی ہے
وہ مدہوش لہجے میں بولا
چھوٹے سنبھالو خود کو اگر ان گھنٹیوں کے بارے میں اسے پتہ چل گیا نا تو تمہارے کان کے نیچے ایسا گھنٹہ بجاۓ گی کہ بنا ٹکٹ کے ولڈ ٹور کروادیگی
امن اسے وارن کرتے ہوۓ بولا
یہ کوئی یش راج فلم کا سین نہیں جہاں تم لڑکی سے ٹکراؤگے اور وہ تمہارے عشق میں گرفتار ہوجاۓ گی یہ کوئی سیدھی سادھی لڑکی نہیں
یہ آفت ہے
مصیبت ہے
قیامت ہے
امن نے اسے ڈرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
ہمیں یہ آفت قبول ہے
مصیبت قبول ہے
قیامت قبول ہے
وہ انکھیں بند کرکے بولا
تمہارا جو قبول
بلکل فضول ہے
امن نے اسکی لائن پوری کی تو وہ امن کو دیکھنے لگا
بہتر ہے کہ اس وقت تم اس کام میں دھیان دو جس کے لیے آۓ ہو چلو…..
امن نے خود ہی اس کا بیگ اٹھایا اور اندر جانے لگا
امی…….
اندر آکر اس نے نسیم. کو مخاطب کیا انور نے بھی انہیں سلام کیا تو انہوں نے مسکرا کر جواب دیا
امی یہ انور ہے میں نے بتایا تھا نا آپ کو… یہ کچھ دن یہیں رہے گا ہمارے ساتھ
اس نے نسیم کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ انور اسکے دوست کا رشتے دار ہے اور جب تک اس کا کالج میں اڈمیشن نہیں ہوجاتا ان کے ساتھ رہنے والا ہے اسلیے انہوں نے پہلے ہی اس کے رہنے کا انتظام گیسٹ روم میں کردیا تھا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial