قسط 6
امن………..
زارا اسے پکارتی ہوئی اس کے کمرے میں سیدھی داخل ہوگئی امن بنا شرٹ کے صرف ٹریک پینٹ میں نیچے زمین پر لیٹا کسرت کر رہا تھا زارا کو دیکھ کر رک گیا
اففففف… گندے
زارا نے اسے ادھے کپڑوں میں دیکھا تو فورا رخ پھیر کر بولی امن نے انکھیں گھمائی اور اٹھ کر بیڈ سے شرٹ اٹھا کر پہننے لگا
کبھی تو کپڑے پہن کر رہا کرو جب دیکھو بےشرموں کی طرح گھومتے ہو
وہ ناگواری سے بولی
تم بھی کبھی ناک کرکے اجایا کرو کم سے کم مجھے میرے روم تو پرائویسی دے دو
امن نے اسے الٹا سنایا زارا دانت پیس کر رہ گئی
اچھا بولو کیا کام ہے
اس نے کہا تو زارا نے رخ اس کی جانب کیا
تم نے کل رات کہا تھا کہ میرے لیے صبح سرپرائیز ہے کہاں ہے میرا سرپرائز….
وہ اسے یاد دلاتے ہوۓ بولی کیونکہ کل رات امن نے کھانے کے وقت سب کے سامنے کہا تھا کہ صبح وہ اسے کوئی سرپرائیز دینے والا ہے
میں نے کب کہا……..
امن نے مصنوعی سنجیدگی سے پوچھا تو زارا کو غصہ اگیا وہ اسے غصے سے دیکھنے لگی
اچھا اچھا اب صبح صبح مجھے بھوکی شیرنی کا شکار نہیں بننا اسلیے چلو دکھاتا ہوں
امن اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے سیڑھیاں اتارتا ہوا نیچے لایا باہری دروازے پر پہنچنے پر رک کر اس نے زارا کو انگلی کے اشارے سے سامنے لان میں کھڑی سفید گاڑی دکھائی جس پر انور بیٹھا دانت نکال رہا تھا زارا خوشی سے چیخی اور دوڈ کر باہر نکلی انور گاڑی سے اتر گیا اور زارا نے بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی اور لان کے چکر لگانے لگی امن بھی باہر لان میں آکر اسے دیکھنے لگا
اس کی چینخ پر نسیم اور فرح دونوں بھی باہر آئی اور اس کا پاگل پن دیکھنے لگی وہ لان کے دو چکر لگا کر واپس اپنی جگہ آئی اور گاڑی بند کردی گاڑی سے اتر کر فورا امن کے گلے لگ گئی
تھینکیو تھینکیو تھینکیو…………. میں بہت خوش ہوں
آۓ نو……. لیکن اس کے لیے اپنا بوجھ کیوں لاد رہی مجھ پر
امن اسے دور کرتے ہوۓ بولا تو زارا نے اس سے الگ ہوکراسےدھکا دیا اور خفگی سے دیکھنے لگی تو وہ ایک کان پکڑ کر ہنس دیا اور خود گاڑی پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی اور زارا کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ آکر اس کے پیچھے بیٹھ گئی
پتہ نہیں کب بڑے ہونگے یہ دونوں ….. جوان ہوگۓ ہیں لیکن بچپنا نہیں گیا
نسیم نے ان کی بچکانہ حرکتوں پر ہنستے ہوۓ کہا
اللہ کسی کہ نظر نا لگاۓ ہمارے بچوں کو کتنے اچھے لگتے ہیں دونوں ساتھ میں
فرح نے دل ہی دل میں ان کی نظر اتاری
کیوں نا انہیں ہمیشہ ساتھ کردیں….
نسیم بیگم دونوں کو دیکھ کر بولی تو فرح نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا
کیا کہنا چاہ رہی ہیں آپ …….
وہی جو تم سوچ رہی ہو میرے بیٹے کو زارا سے اچھی لڑکی نہیں مل سکتی
فرح کی حیرانی کو دور کرتے ہوۓ انھوں نے کہا تو ان کا دل اندر تک خوش ہوگیا
سچ بھابھی میرے دل بات کہہ دی آپ نے …….
میرے دل میں بھی بہت دن سے یہ بات چل رہی تھی بس امن کی مصروفیت زرا کم ہوجاۓ اس کے بعد میں اس سے بات کرونگی
انہوں نے فرح کا ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا امن اور زارا وہاں آۓ
امی …..بڑی امی….. دیکھیے نا میری نئی گاڑی…..
زارا نے خوش ہوتے ہوۓ دونوں کو باری باری بتایا
ہاں بیٹا جاؤ اب جاکر تیار ہوجاؤ اور ناشتہ کرلو کالج نہیں جانا امن تم بھی اجاؤ جلدی سے اور انور کو بھی بلا لو
نسیم بیگم نے ایک ساتھ ہی سارے انسٹرکشنس دے دیے زارا اب تک نائٹ ڈریس میں ہی تھی اور اسے کالج جانے سے پہلے تھوڑی دیر پڑھائی بھی کرنی تھی اسلیے جلدی سے اندر کو بھاگی امن نے انور کو آواز دی اور خود بھی اندر چلا آیا











زارا گھر جانے کے لیے نکلی تھی کہ چند قدم پر ہی گاڑی رک گئی وہ پریشان ہوکر گاڑی کو سٹارٹ کرنے کی کوشش کرنے لگی نئی گاڑی تھی اس لیے وہ اس کے بارے میں زیادہ کچھ جانتی بھی نہیں تھی اب ااے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کرے تو کیا کرے تب ہی وہاں ایک سفید کار آکر رکی اور گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے ضارم نے سر باہر نکالا وہ حیران ہوکر اسے دیکھنی لگی
کیا ہوا زارا…. کیا کوئی پرابلم ہے
اس نے سنجیدگی سے پوچھا جب کہ زارا کو اس کے منہ سے اپنا نام سن کر بری طرح جھٹکا لگا لیکن اب وہ اس سے پوچھ تو نہیں سکتی تھی
گاڑی رک گئی چلتے چلتے… پتہ نہیں کیوں
وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ کس طرح بات کرے کیونکہ آج پہلی دفعہ وہ ضارم سے بات کررہی تھی اس کے جواب پرضارم باہر آیا
کیا میں دیکھ سکتا ہوں…..
اس نے پوچھا تو زارا اسے دیکھتی ہوئی دو قدم پیچھے ہوگئی ضارم آگے بڑھ کر گاڑی سٹارٹ کرنے لگا تو گاڑی سٹارٹ ہوگئی لیکن آگے نہیں بڑھ رہی تھی کیونکہ ٹائر پنکچر ہوگیا تھا جو اسے پیچھے دیکھنے پر پتہ چلا زارا بس اسے ہی دیکھ رہی تھی
ٹائر پنکچر ہے….
وہ زارا کی جانب دیکھ کر بولا تو زارا نے ٹائر کی جانب دیکھا پھر دوبارہ اسے
.میں نے دیکھا ہی نہیں تھا….
کوئی بات نہیں آؤ میں تمہیں گھر چھوڑدیتا ہوں
اس نے آفر کی زارا کو جیسے یقین ہی نہیں آرہا کہ وہ اس کے سامنے اس سے بات کررہی ہے جسے وہ صرف دیکھ کر مسرور ہوجاتی تھی
نہیں رہنے دیجیے آپ کیوں تکلیف کرینگے میں چلی جاؤنگی
دل تو کچھ اور ہی چاہ رہا تھا لیکن وہ دل کو سنبھال کر دماغ سے کام لیتے ہوۓ بولی
فارمیلیٹی کی کوئی بات نہیں میں اسی طرف جارہا ہوں آؤ
وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ بولا زارا بھی اپنا بیگ لے کر کاندھے پر ڈالتے ہوۓ گاڑی میں بیٹھنے لگی
لیکن گاڑی
گاڑی میں بیٹھتے ہی اسے خیال آیا تو بولی
ڈونٹ وری حنیف سے کہہ دونگا وہ ٹھیک کروا کر آپ کے گھر پہنچادے گا
اس نے اپنے ایک خاص کلاس میٹ کا نام لیتے ہوۓ کہا تو زارا خاموش ہوگئی ضارم بھی خاموشی سے ڈرائیو کررہا تھا زارا کہ لیے نا جانے کتنا ہی خوبصورت لمحہ تھا یہ لیکن پھر بھی وہ بات تک نہین کرسکتی تھی
کل تم کالج کیوں نہیں آئی تھی
کافی دیر بعد ضارم کی آواز نے خاموشی کو توڑا زارا مزید حیران ہوئی وہ اس سے اتنا اشنا تھا کہ اس کی ایک دن کی غیر حاضری تک نوٹ کرچکا تھا اور اتنی فریلی تم کہہ کر بات کررہا تھا کہ اسے شاک پر شاک دیے جارہا تھا
طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اسلیے.. لیکن آپ کو کیسے پتہ
اس نے بہت ہمت کرکے پوچھ لیا تو وہ ہلکا سا مسکرایا
روز نظر اتی ہو کبھی گراؤنڈ میں کبھی کینٹین میں کل نہیں دیکھا اس لیے……
وہ اس کی جانب دیکھ کر دوبارہ سامنے دیکھنے لگا زارا خاموش ہوگئی کہتی بھی تو کیا …….سارا راستہ خاموشی سے ہی گزرا گھر پہنچنے پر اس نے گاڑی روکی تو زارا اتر گئی
گاڑی کا کہہ دیا ہے میں نے پہنچادے گا وہ یہاں….. ٹیک کیئر
اس نے زارا سےسرسری سا کہا اور گاڑی بڑھا لے گیا زارا اسے نظروں سے اوجھل ہونے تک دیکھتی رہی اور جیسے ہی اس کا سحر ٹوٹا اپنی زوردار چینخ کو بمشکل دھیمی کرکے اپنی جگہ اچھل پڑی سب سے پہلے اسے امن کو بتانے کا خیال آیا تو بجلی کی رفتار سی دوڑتی ہوئی اندر آئی فرح سے ٹکراتی اس کے پہلے ہی خود کو امرجنسی بریک لگاکر روکا اس سے پہلے کہ فرح کی ڈانٹ پڑے فورا کان پکڑ لیے
زارا تم کس کے ساتھ آئی ہو اور تمہاری گاڑی کہاں ہے
فرح نے اسے ضارم کی گاڑی سے اترتے دیکھ لیا تھا
امی وہ ہمارے کالج کے سٹوڈنٹ ہے میری گاڑی پنکچر ہوگئی تو انہوں نے لفٹ دے دی
اس نے مسکرا کرکہا فرح اسے پر سوچ لہجے میں دیکھنے لگی
امی امن کہا ہے…….
وہ فرح کے غصے کو نظر انداز کرکے پوچھنے لگی اور ساتھ ہی بیگ اچھال کر صوفےپر پھینکا
وہ گھر میں نہیں ہے کیوں کیا کام ہے اب اس سے
فرح نے اس کی حرکت پر سر پیٹ کر پوچھا
کچھ بہت ضروری بات کرنی ہے اس سے……. جانے دیجیے میں اسے فون کرلونگی
وہ کہہ کر موبائل نکالتی ہوئی پلٹ کرروم میں جانےلگی
زارا……
دیکھو بیٹا بچپنا چھوڑو اب بڑی ہوگئی ہو تم
فرح نے اسے روک کر سمجھاتے ہوۓ کہا تو زارا انہیں ناسمجھی سے دیکھنے لگی
اس طرح امن سے بات بات پر مزاق بے باقی سے بات کرنا تو تا کہہ کر پکارنا کیا ہے یہ سب…. مت بھولوں تم اب بچی نہیں ہو بڑی ہوگئی ہو اور امن ایک لڑکا ہے
فرح کے لہجے میں تھوڑی سختی بھی تھی زارا اسے حیرت سےدیکھنے لگی
ایسے مت دیکھو مجھے جو کہہ رہی ہوں سہی کہہ رہی ہوں لڑکی کو ہمیشہ ایک دائرے میں رہنا چاہیے یہ حد سے زیادہ فری ہونا اچھی بات نہیں ہے
وہ اسکی حیرانی پر مزید سختی سے بولی
زارا پانی بھری انکھوں میں ڈھیر ساری خفگی لیے اسے دیکھتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی اور فرح نے تاسف سے سرہلا دیا نیچے اترتے ہوۓ نسیم نے اسے روم میں جاتے دیکھا تو اندازہ لگا لیا کہ ڈانٹ پڑی ہوگی
اسے کیا ہوا……..
کچھ نہیں…. کچھ بھی سمجھانے جاؤ تو بس منہ بنا دیتی ہے
نسیم کے پوچھنے پر فرح نے بند دروازے کی جانب دیکھتے ہوۓ لاپرواہی سے جواب دیا
اب کیا کردیا فرح اس نے……..
نسیم نے ناراضگی سے کہا
بھابھی پتہ نہیں کب جاۓ گا اس کا بچپنہ………..آخر لڑکی ہے………. آپ تو جانتی ہے لوگوں کو بس موقع چاہیے ہوتا ہے بولنے کا
فرح اس کی شرارتوں اور نادانیوں کو لیکر پریشان تھی اور بار بار اسے سمجھاتی رہتی لیکن وہ بات سرے سے اڑا دیتی لیکن فرح کو اب واقعی اس کی فکر ہونے لگی تھی
لوگوں کے بولنے کا اتنا اثر نہیں پڑتا فرح جتنا ماں کہ کہنے سے ہوتا ہے ہمیں اپنے بچوں پر بھروسہ کرنا چاہیے اگر ہم انہیں نہیں سمجھے گے تو اور کون سمجھے گا
نسیم نے نرمی سے کہا تو وہ چپ ہوکر رہ گئیں
میں جاکر اسے مناتی ہوں ورنہ سارا دن یونہی کمرے میں بند رہے گی
وہ زارا کے کمرے کی جانب دیکھ کر بولیں









امن جانے سے پہلے زارا سے ملنے اس کے روم میں آیا کافی دن سے اس کی ٹھیک سے بات نہیں ہوئی تھی اور صبح نسیم نے اسے بتایا کہ زارا اسے پوچھ رہی تھی تو جلدی میں ہونے کے باوجود وہ اس کے کمرے میں اس سے ملنے ایا لیکن اندر داخل ہوتے ہی اندر کا منظر دیکھ وہ شاک ہوکر رک گیا
اس کے سامنے جو زارا کھڑی تھی وہ کوئی اور ہی تھی یلو کرتی اور ریڈ لیگن میں ریڈ دوپٹہ کاندھے پر پھیلا ہوا ہلکا ہلکا سا میک اپ اور کانوں میں سلور ائیر رنگ بالوں کو پن اپ کرکے کھلا چھوڑا ہوا تھا وہ اسے کوئی اور ہی لگی زارا بیگ کاندھے پر ڈال کر باہر نکل رہی تھی امن کو اس طرح دیکھتے پایا تو رک گئی عجیب تو اسے بھی لگ رہا تھا جانتی تھی اس اچانک تبدیلی پر امن کا کیا کافی لوگوں کا ری ایکشن ایسا ہی ہوگا لیکن یہ اس نے ضارم کے لیے کیاتَھا جب امن نے کچھ نہیں کہا تو وہ خود ہی بولی
ایسے کیا گھور رہے ہو
اس کے لہجے میں سوال کے علاوہ معمولی سی جھجھک بھی شامل تھی
سوچ رہا ہوں کہیں غلطی سے کسی اور لڑکی کے روم میں تو نہیں اگیا…. یہ تم ہی ہو نا زارا…… یقین نہیں ارہا مجھے
وہ انکھیں بڑی کرکے بولا
اب اس میں ایسی بھی کیا حیرانی کی بات ہے سب لڑکیاں کرتی ہے ….میں نے بھی کرلیا….. اس میں شاک کیا ہونا
وہ. دوبارہ مڑ کر آئینہ دیکھنے لگی
لڑکیاں کرتی ہے نا مگر تم لڑکی کہاں ہو…… تم تو بندریا ہو
وہ قریب آکر اس کے عکس کو دیکھ کر بولا
امن…..
وہ پلٹ کر اسے گھورنے لگی
اپنے ہیرو کے لیے سج سنور رہی ہو نا تم ……..کمال ہے یار تم لڑکیاں بھی ……کب کیا چل رہا ہے اور کیا کرنے والی ہو کوئی نہیں سمجھ سکتا ….
وہ ہلکا سا ہنس کر بولا لیکن لہجہ سنجیدہ تھا
بکواس بند کرو اور بتاؤ کیسی لگ رہی ہوں
اچھی لگ رہی ہو ……….لیکن اگر اب ضارم تمہیں ایسے پسند کریگا تو مجھے کوئی خاص خوشی نہیں ہوگی
وہ سنجیدگی سے بولا تو زرا حیران ہوکر دیکھنے لگی
کیوں امن…..
وہ پریشان سی شکل بنا کر بولی
تم نہیں سمجھوگی……
وہ چند پل. رک کربولا اور اسے دیکھتا ہوا باہر نکل گیا
کبھی سیدھی بات کر ہی نہیں سکتا یہ…..
زارا نے جھنجلا کر کہا اور اپنا بیگ کاندھے پر ڈال کر باہر نکل گئی